Watch the full episode of Agri Business 27 May 2023, a Tv program on Rohi Tv as part of our Save Our Invaluable Rural Assets campaign against corporate control of Pakistan’s dairy and Livestock Sector. #SaveOurInvaluableRuralAssets
Category Archives: Resistance
#SaveOurInvaluableRuralAssets پیورفوڈ قانون کیا ہے؟؟ | Agri Business |
Watch the full episode of Agri Business 6 May 2023, a Tv program on Rohi Tv as part of our Save Our Invaluable Rural Assets campaign against corporate control on the dairy and Livestock Sector in Pakistan. #SaveOurInvaluableRuralAssets
#SaveOurInvaluableRuralAssets International Labour Day 2023 | Public Forum
On International Labor Day, PKMT, Roots and Sanjhi Dharti participated in a live TV program Public Forum and highlight the imperialist attack on agriculture workers, and landless farmers in the milk & livestock sector. #SaveOurInvaluableRuralAssets
Kheti Sar Seti with Kamal Lashari #SaveOurInvaluableRuralAssets
Watch full episode of Kheti Sar Seti with Kamal Lashari, a TV program on Sindh TV News for Save Our Invaluable Rural Assets. The corporate sector’s attack on the agriculture and livestock sector in Pakistan is vicious. The imperialist agenda will be defeated.
مہم برائے مال مویشی دودھ : بچاؤ دیہی انمول اثاثے – پمفلٹ
بچاؤ دیہی انمول اثاثے؛ مہم برائے مال مویشی و دودھ
پریس ریلیز| 8 مارچ 2023
پاکستان کسان مزدور تحریک نے مزدور عورتوں کے عالمی دن 8 مارچ، 2023 کو ”بچاؤ دیہی انمول اثاثے؛ مہم برائے مال مویشی و دودھ“ کا آغاز کیا ہے۔ اس مہم کا مقصد حکومت کے تازہ قدرتی کھلے دودھ پر مکمل پابندی کے قانون، دودھ اور مال مویشی کے شعبے میں بڑھتی ہوئی آزاد تجارتی پالیسیوں اور اس شعبہ پر ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے قبضے کے خلاف کسان و عوام کو خبردار کرتے ہوئے اپنے خوراک و روزگار اور ماحول کے بچاؤ کے لیے عوام کو متحرک کرنا ہے۔
پنجاب اور سندھ فوڈ اتھارٹیوں نے دودھ کے شعبہ میں بڑھ چڑھ کر قانون سازی شروع کی ہے۔ اس حوالے سے پنجاب اور سندھ فوڈ اتھارٹی نے 2018 میں پیور فوڈ قانونی ضابطے (ریگیولیشنز) جاری کیے ہیں۔جس کے فوری اطلاق کے لیے اب پنجاب حکومت لاہور اور اس کے بعد پورے پنجاب میں تازہ قدرتی کھلے دودھ پر مکمل پابندی کے لیے بار بار اعلانات کررہی ہے۔ ان قانونی ضابطوں کے تحت تازہ قدرتی کھلے دودھ کو پیسچورائز کرنے کے بعد ہی فروخت کیا جاسکتا ہے۔ وہ کاروبار جو کہ دودھ اور دودھ سے بنائی جانے والی دیگر اشیاء کو تیار کررہے ہیں ان سب کو حکومت سے فروخت کا لائسنس لینا ہوگا۔
اس قانون کے پیچھے کونسے طاقت ور گروہوں کا ہاتھ ہے؟ یہ قوانین عالمی تجارتی ادارہ ڈبلیو ٹی او کے تحت سینیٹری اور فائیٹو سینیٹری معاہدہ اور ٹیکنیکل بیریئرز ٹو ٹریڈ کو مد نظر رکھ کر بنائے گئے ہیں۔ ان قوانین کو دراصل بڑی بڑی دیو ہیکل دودھ اور مال مویشی کے سرمایہ دار اور سرمایہ کار کمپنیوں کی ایما پر کیا جارہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر دودھ اور دودھ سے تیار کردہ مکھن، پنیر، ملائی اور دیگر مصنوعات یہی اجارہ دار کمپنیاں تیار اور فروخت کرتی ہیں اور بے تحاشہ منافع کماتی ہیں۔ ان کے بالمقابل چھوٹے اور بے زمین کسان گھرانے ہیں جن میں خاص کر اس شعبے سے منسلک مزدور کسان عورت کی سخت محنت ہمارے پورے ملک کو دودھ اور گوشت جیسی انمول غذا فراہم کرتے ہیں۔ دراصل اجارہ دار کمپنیاں ان ہی لاکھوں گھرانوں کی روزی اور خوراک پر ڈاکہ ڈال رہی ہیں۔ دیہی کسان مزدور عورت کا زراعت بالخصوص مال مویشی اور دودھ کی پیداوار میں کلیدی کردار کی وجہ سے ہی اس مہم کا آغاز مزدور عورتوں کے عالمی دن 8 مارچ سے کیا جارہا ہے۔ Continue reading
بھوک کا عالمی دن 2022: خوراک کی خود مختاری اور موسمیاتی انصاف کی جدوجہد
پریس ریلیز 16 اکتوبر 2022
زراعت اور خوراک کا عالمی ادارہ فاؤ دنیا کی اشرافیہ کے ساتھ ملکر آج خوراک کا عالمی دن منا رہی ہے جبکہ چھوٹے اور بے زمین کسانوں، شہری اور دیہی مزدوروں اور عوام کے لیے یہ بھوک کا عالمی دن ہے۔ پوری دنیا میں بھوک اور قحط کی موجودہ صورتحال عالمگیریت کے بھیانک چہرے کی عکاسی کرتا ہے۔
عالمی سطح پر بھوک کے اعداد و شمار ایک بار پھر بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ 2021 میں، دنیا بھر میں تقریباً 2 ارب 30 کروڑ افراد غذائی کمی اور غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور تقریباً 83 کروڑ افراد بھوک کا شکار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جولائی 2022 میں 82 ممالک شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں جس سے 34 کروڑ 50 لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہیں۔
اس بھوک کو مزید ہوا سامراج کا پیدا کردہ موسمی بحران دے رہا ہے۔ صرف پاکستان میں حالیہ مون سون کی شدید بارشوں کے نتیجے میں 80 لاکھ ایکڑ سے زائد کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مال مویشی، بڑی تعداد میں گندم کا ذخیرہ اور جانوروں کا ذخیرہ شدہ چارہ 8 ہفتوں کے دوران ہونے والی مسلسل بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ضائع ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل ہے۔ اقوام متحدہ ادارہ برائے انسانی فلاح نے عندیہ دیا ہے کہ تقریباً 57 لاکھ سیلاب زدگان کو اگلے تین ماہ میں خوراک کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق حالیہ سیلاب سے پہلے بھی 16 فیصد آبادی کم یا شدید غذائی کمی اور عدم تحفظ کا شکار تھی۔ Continue reading
Small and Landless Farmers Resist the Vicious Cycle of Imperialist Climate Crisis and State Negligence
PKMT farmers from Khairpur, Shikarpur and Ghotki districts held a demonstration in front of Sukkur Press Club against the imperialist Climate Crisis and State Negligence
چھوٹے اور بے زمین کسان موسمی بحران کی زد میں
پریس ریلیز| 19 ستمبر 2022
پاکستان کے کل 160 اضلاع میں سے 81 اضلاع موسمی بحران کی وجہ سے آنے والے سیلاب کی زد میں آکر شدید متاثر ہوئے ہیں، جبکہ سندھ میں کئی مہینوں پر مبنی مسلسل بارش اور پھر دریائی سیلابی ریلوں نے 23 اضلاع میں دیہی زندگی کو شدید متاثر کیا ہے اور اگر کراچی کے 7 اضلاع کو بھی شامل کرلیں تو پورے سندھ کو اس طوفانی بارش اور سیلاب سے شدید نقصان پہنچا ہے۔
پاکستان میں کل 8.3 ملین ایکڑ زمین پر فصلیں متاثر ہوئیں جبکہ سندھ کی 3.5 ملین ایکڑ زمین پر فصلیں برباد ہوئیں۔ اس نقصان کی زد میں گوٹھ در گوٹھ ڈوب گئے ہیں۔ اب تک کی خبروں کے مطابق 1,545 افراد کے جانی نقصان کے ساتھ ساتھ شدید مالی نقصان بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) سندھ کی 17 ستمبر کی رپورٹ کے مطابق 678 افراد، 232,593 جانور اور 1,729,584 گھروں کا نقصان ہوا ہے۔ 20 جون سے 30 اگست تک اس سیلاب سے مجموعی طور پر 18,138 جانور جاں بحق ہوئے تھے جبکہ ستمبر کے صرف پہلے 17 دنوں میں 214,455 مزید جانور ختم ہوگئے ہیں۔ باقی اعداد و شمار میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ سامراجی طرز پیداوار جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد اور سرمائے کی ہوس پر قائم ہے، فضاء میں کاربن کے مسلسل اور بے تحاشہ اخراج اور عالمی حدت میں اضافے کا ذمہ دار ہے۔ دنیا بھر میں اس اخراج کے نتیجے میں ہونے والے موسمی بحران شدت اختیار کرتے ہوئے پہ درپہ موسمی آفات کے واقعات میں بے تحاشہ اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس وقت ناصرف پاکستان بلکہ بھارت، سوڈان اور اٹلی میں بھی ہنگامی سیلابی صورتحال ہے۔ Continue reading
معاشی بحران سے موسمی بحران تک
اگست 30، 2022 | پریس ریلیز
پاکستان کا شمار پچھلے کئی برسوں سے ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جو موسمی بحران کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ یہ موسمی بحران قدرتی نہیں بلکہ سامراجی نظام کا نتیجہ ہے اور جب تک سامراجی تسلط ختم نہیں ہوتا اس میں بہتری ممکن نہیں۔ مگر پچھلے چند سالوں میں جو موسمی بحران کے نتیجے میں تباہی دیکھنے میں آئی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ جس میں 2007 سے لیکر 2022 تک تقریباً ہر سال آنے والے سیلاب شامل ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی حالیہ شدید بارشوں کی تباہ کاریوں کو اب تک کے اندازے کے مطابق 2010 کے سیلاب، جس میں 2 کروڑ سے زائد افراد متاثر اور 2 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، سے زیادہ تباہ کن مانا جارہا ہے جبکہ دریائی سیلابی ریلوں کا ابھی ملک کے بیشتر حصوں سے گزرنا باقی ہے۔
پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق ملک بھر میں حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو سیلاب کی شدت نے سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا سمیت پورے ملک میں ہزاروں بستیوں اور خاندانوں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے تو دوسری طرف ان کے مکانات، مال مویشی، فصلوں اور دیگر کاروبار کو شدید نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے وہ بے سرو سامان اور بے یار مددگار ہوگئے ہیں۔ خاص طور پر سندھ کی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہونے کے دھانے پر پہنچ چکی ہیں جس میں چاول، مکئی، کپاس، گنا اور سبزیاں سر فہرست ہیں۔ پی ڈی ایم اے، سندھ کی کل (29 اگست) کی رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ کے بیشتر اضلاع حالیہ بارشوں سے نہ ہی صرف شدید متاثر ہوئے ہیں بلکہ یہاں کی زندگی انتہائی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے جس میں دادو، خیرپور، شہید بے نظیر آباد (نواب شاہ)، لاڑکانہ، نوشہرو فیروز، شکارپور، سانگھر، کشمور، گھوٹکی اور میرپور خاص سمیت دیگر اضلاع شامل ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق سندھ میں اب تک 402 افراد جاں بحق، 1,055 افراد زخمی اور 15,435 مال مویشی ہلاک ہوگئے۔ 2,53,208 مکان مکمل طور پر ڈھ گئے جبکہ 6,31,389 مکانوں کو جزوی نقصان پہنچا۔ صرف صوبہ سندھ کی 3,269,608 ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا اور فصلیں تباہ ہوئیں۔ ضلع لاڑکانہ کے 80 فیصد مکانوں اور 90 فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ حالیہ بارش کے نتیجے میں 7,133,650 افراد، 1,191,356 گھرانے متاثر ہوئے جبکہ 4,098,053 افراد بے گھر ہوئے۔ ڈپٹی کمشنر گھوٹکی محمد عثمان عبداللہ کے مطابق صرف ضلع گھوٹکی میں اب تک 8 فوتگیاں اور 39 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ 3,46,863 ایکڑ زمین پر مشتمل فصلیں اور 4,044 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ 9,974 گھروں کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ 13,451 خاندان اور 72,590 افراد متاثر ہوئے ہیں۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار حکومت سندھ کے محکموں کی جانب سے جاری کردہ ہیں اور اب تک کی رپورٹ کی بنیاد پر ہیں جبکہ حقیقی واقعات کو منظر عام پر نہ لانے اور وقت کے ساتھ ان اعداد و شمار کے بڑھ جانے کا خطرہ اور اندیشہ ہے۔ ان بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا اصل اندازہ اور تخمینہ یہ آفت گزرجانے کے بعد ہی لگایا جاسکے گا۔ دیگر ذرائع کے مطابق صوبہ سندھ کے کم از کم دیہی علاقوں میں کوئی کچا مکان ایسا نہیں ہے جو متاثر نہ ہوا ہو۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بیماریاں پھوٹ رہی ہیں جو ان کی موت کا سبب بھی بن رہی ہیں۔ کچے کے ساتھ ساتھ پکے کے علاقے بھی زیر آب ہیں اور ہزاروں لوگ اس وقت امداد کے انتظار میں کھلے آسمان تلے سڑکوں پر شب و روز گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) کے مختلف اضلاع کے ممبران کے مطابق سندھ کے بعض اضلاع میں کوئی سرکاری امداد ابھی تک نہیں پہنچی ہے جو کہ حکومتی نااہلی اور بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔