صیہونی اسرائیلی اور سامراجی مصنوعات کا بائیکاٹ

               اس وقت  پوری دنیا   میں شدید انتشار اور بحران نظرآرہا ہے ۔سرمایہ داری عروج پر ہے اور سرمایہ داری جب عروج پر آتی ہے تو اس کو ہم سامراجیت کہتے ہیں۔ سامراجیت اس وقت پوری کوشش میں ہے  کہ دنیا کے تمام تر وسائل پر قبضہ کر لے  کیونکہ وسائل پر قبضے  سے ہی سرمایہ دار کے منافع میں اضافہ ممکن ہے ۔اسی وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ  نیولبرل ازم یعنی آزاد تجارت کے اصولوں کے تحت ملکوں کےاوپر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اپنے منڈیوں کو مکمل طور پر تجارت کے لیےکھول دیں۔ جو ممالک ان  احکامات کو تسلیم کر لیتے ہیں تو آزاد تجارت کے ذریعے ان کے وسائل ،ان کی منڈی اور ان کے مزدوروں پر قبضہ کر لیا جاتا ہے ۔ ایسے ممالک جوان احکامات کو   نہیں مانتے اور اپنے آپ کو اس سامراجی جبرو تسلط سے الگ رکھنا چاہتےہیں تو پھر ان کے اوپر جنگ مسلط کر دی جاتی ہے۔

 آج سے 75 سال پہلے برطانوی راج نے مشرقی وسطیٰ میں  فلسطینی زمین پر قبضہ کر کے  زبردستی ایک ریاست قائم  کی جس کا نام اسرائیل ہے۔یہاں پر بسنےوالے تقربیاً 7.5 لاکھ فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کیا گیا۔آج امریکہ کی پشت پناہی  کے ساتھ پور ی کوشش کی جار ہی ہے کہ صیہونی اسرائیل فلسطین کومکمل طور پر ختم کر کے  پورے علاقے پر قبضہ کرلے ۔ صیہونی اسرائیل کو بنانے کا مقصد ہی مشرقی وسطیٰ  پر قبضہ کرنا تھا  تاکہ اس علاقے کے تیل اور گیس  کے بے تحاشہ  قیمتی ذخائرپر بھی قبضہ کیا جا سکے ۔ اب  دنیامیں کم ہوتے  ہوئے قدرتی  ذخائر کی وجہ سے ان  کی  اہمیت و ضرورت اور بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

               فلسطین اور بالخصوص غزہ کی پٹی پر دہشت گرد، فاشسٹ، نوآبادیاتی صیہونی اسرائیل کی بمباری اور ظلم و ستم  کسی سے چھپا ہوا  نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کا وجود اور حالیہ سر زمین فلسطین پر جاری جارحیت، قبضہ ،پیش قدمی اور فلسطینیوں کی نسل کشی فقط مذہبی یا نسلی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے  ایک نیا تجارتی و اقتصادی راہداری منصوبہ  (IMEC) ہے ۔جس کے ذریعے غزہ اور مغربی کنارے کے تیل کے ذخائر پر قبضہ مقصود ہے۔ امیک  چین کی اقتصادی راہداری “BRI” کے طرز کی ایک مقابل راہداری ہے جسکی رہنمائی  امریکہ کر رہا ہے۔  اس منصوبے میں دو راہداریاں قائم کی جائیں گی، ایک مشرقی راہداری اور دوسری شمالی راہداری۔ مشرقی راہداری بھارت کو متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب اور اسرائیل سے جوڑے گی، جبکہ شمالی راہداری مشرق وسطی کے ممالک کو یورپی ممالک  سے جوڑے گی۔  ساتھ ہی ”ابراہم ایکارڈز“ کے ذریعے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سازش شامل ہے تاکہ مشرقی وسطی ٰ اور مسلمان  ممالک کے ساتھ صیہونی اسرائیل  کےبنا کسی رکاوٹ اور مشکل کے تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کر سکے اور امریکی سامراج کو اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں آسانی ہوسکے۔ حالیہ اسرائیلی بربریت کی ایک اور وجہ اس کے علاوہ غزہ اور مغربی کنارے میں دریافت ہونے والے تیل اور گیس کے ذخائر بھی ہیں جن پر اسرائیل اور امریکہ حاوی ہونا چاہتے ہیں۔

               یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ “اسرائیل “سو ئیزکینال  کی طرح کا ایک اور کنال بین گرئین  کینا ل قائم کر نا چاہ رہا ہے جس کے لیے غزہ پٹی ایک رکاوٹ ہے۔ یوں کہہ لیں کے اسرائیل اور امریکہ فلسطین کو کرہ ارض سے مٹانے کی پوری تیاری کررہا ہے۔

               غزہ سمیت عالمی امن کے لیے ضروری ہے کہ فاشسٹ سامراج کو لگام دیا جائے جو ہتھیاروں کی تجارت،  اورمزدوروں کے استحصال پر پرپلتا  پھولتا ہے۔ اس سامراج کا مقابلہ دنیا بھر کا محنت کش طبقہ  ہی کر سکتا ہے جس کا ایک طریقہ سامراجی کمپنیوں اور ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ ہے۔ صیہونی اسرائیل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بائیکاٹ اگر حکمت عملی کے ساتھ کیا جائے تو مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اسرائیل کی نسل کش حکومت کے ساتھ تمام ریاستی، سفارتی، کاروباری اور ادارہ کی سطح پر تمام تعلقات کو ختم کرنا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔

خصوصی  بائیکاٹ : انتہائی ضروری ہے کہ ان کمپنیو ں کو ہدف بناکر ان کی مصنوعات کے ساتھ ساتھ ان کا مکمل سماجی و معاشی بائیکاٹ کیا جائے جو اسرائیل کے جرائم میں واضح اور براہ راست کردار ادا کرتی ہیں اور جن کی حمایت کے حقیقی شواہد موجود ہیں۔مثلاًمیکڈونلڈز، اور برٹش پٹرولیم، کارفور، سیمنز وغیرہ۔

عمومی بائیکاٹ :وہ کمپنیاں جو کہ براہ راست اسرائیل کے مظالم میں شریک نہیں ہیں اور نہ ہی” بظاہر” اسرائیل کی حمایت کرتی نظرآتی ہیں لیکن وہ بین الاقوامی اور کثیرالقومی کمپنیاں ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج سے جڑی ہیں، ان کمپنیوں کا بائیکاٹ بھی ہمیں کسی نا کسی طور پر کرنا ہے اور کوشش کرنی ہے کہ ان کمپنیوں سے بطور صارف یا سرمایہ کار کسی قسم کا تعلق نہ رکھا جائے۔ ۔ مثلاً   شیل پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ،  برگرکنگ وغیرہ۔

درج ذیل مصنوعات اور کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں اور ان کے بجائے مقامی مصنوعات کو ترجیح دیں تاکہ مقامی صنعت کو فروغ ملےاور ملکی معیشت مضبوط ہو سکے ۔