بڑھتی ہوئی صنعتی زراعت اور زرعی زمینوں پر قبضہ: کسانوں کا لائحہ عمل

پریس ریلز

پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) ضلع شکارپور کا دوسرا ضلعی اجلاس بعنوان”صنعتی زراعت اور زرعی زمینوں پر قبضہ“ مورخہ20جون2021کومنعقدکیا گیا۔ جس میں ضلع بھرکے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کی جانب سے شرکت کی گئی۔ اجلاس کی شروعات پی کے ایم ٹی کے ترانے سے کی گئی۔

0پی کے ایم ٹی کے رکن علی گل نے سرمایہ دارانہ زراعت کے کسانوں اور مزدوروں پر اثرات کے موضوع پر بتایا کہ ”پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی 70 فیصد آبادی بلواسطہ یا بلا واسطہ زراعت سے وابستہ ہے۔ ہماری دیگرکئی اور ضروریات بھی کسی نا کسی طور اس شعبے سے ہی منسلک ہیں “۔ کسان ملک بھر میں کئی طرح کی فصلیں کاشت کرتے ہیں جس کی وجہ سے آج ہم دنیا کے صف اول کے ان دس ممالک میں شامل ہیں جہاں گندم، چاول، کپاس، گنا، مکئی، سبزیاں، گوشت، اور دودھ کی پیداواربھر پور طور سے ہو رہی ہے۔ لیکن پیداوار پر زیادہ تر اختیار مٹھی بھر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ہاتھ میں ہے۔ بیج سے لے کر کھاد اور دیگر زرعی مداخل کسان منڈی سے حاصل کرنے لگے اورساتھ ہی زمین کی تیاری، فصل کی کٹائی میں تھریشرکا بھی استعمال شروع ہوا جوکہ تمام تر ایندھن سے چلتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں کسان اپنے دیسی اور روایتی بیج سے محروم ہوئے اور بے روز گاری میں بھی اضافے کاسبب بنا۔ ان تمام عوامل کی اہم وجہ صنعتی زراعت ہے جس کے نتیجہ میں ہماری روایتی کھیتی باڑی مصنوعی زراعت میں تبدیل ہوچکی ہے۔ صنعتی زراعت کی شروعات 1960 کی دہائی میں زرعی پالیسی یاسبز انقلاب کے نام سے ہوئی۔ہمارے کسانوں کو زیادہ پیداوار کی لالچ اور سبز خواب دکھائے گئے۔ غیر ملکی بیج اور کھاد بنانے والی کمپنیوں نے زیادہ پیداوار دینے والے بیج، کھاد، زہریلی ادویات اور جدید مشینیں متعارف کروائیں۔ جس پر مکمل اختیار سرمایہ داروں کے پاس تھا۔کسان اپنے دیسی اور روایتی بیج سے محروم ہوئے بلکہ بے روز گاری میں بھی اضافہ ہوا۔ غیر معیاری بیج کے آنے سے کسان نہ صرف بیج سے محروم ہوا بلکہ اس پر استعمال ہونے والے زہریلی اودیات اور کیمیائی کھاد کی وجہ سے کسان بیماریوں میں جکڑے گئے اور ماحول کی تباہی الگ سے ہوئی۔ فصلوں کی کٹائی کا زیادہ تر کام کسان عورتیں ہی سرانجام دیتی ہیں، لہذا ان کی ایک بڑی تعداد کو ان مشکلات کاسامنا ہے۔

ایک طرف ملک کی اکثریتی زرعی زمین چند خاندانوں کے قبضے میں ہے جبکہ دوسری جانب کسان منڈی کے محتاج ہو چکے ہیں۔ آج کے دور میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے کسان و مزدور بھوک، افلاس اور فاقوں کا شکار ہیں۔ یہ طبقہ گرمی، سردی، دھوپ کی پرواہ کیے بغیر ہمارے لیے کھانا اگاتے ہیں لیکن ان کے اپنے گھروں میں دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے پوری ہوپاتی ہے۔ان تمام مسائل کا حل بے زمین کسانوں میں زمین کا مساویانہ بٹوارہ، بیج پر کسانوں کے مالکانہ حقوق کو تسلیم کرنا اور زرعی مداحل کو کسانوں کے اختیار میں دے کرہی کیا جا سکتا ہے۔

پی کے ایم ٹی کے رہنما حاکم گل کا کہنا تھا کہ” شکارپور تاریخی طور پر تجارت کے حوالے سے مشہور رہا ہے۔ ضلع کی کل آبادی تقریباََ 12لاکھ سے زیادہ ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے نہ صرف شہر بلکہ دریائی علاقوں تک ہاؤسنگ اسکیموں کے نام سے زرعی زمینوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔کسانوں کو اپنی زرعی زمینیں جبراََبیچنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اور اس کام میں سرکاری افسران، بڑے جاگیردار اور سرمایہ دارملوث ہیں“۔ زرعی زمینوں پر اگر پیٹرول پمپ، ہاؤسنگ سوسائٹی، ہوٹل بنا دیئے جائیں گے تو آنے والے وقت میں کسان اناج کہاں اگائیں گے؟
شکارپور میں ڈاکووں اور پولیس کے آئے دن مقابلے جاری ہیں۔ کیا واقعتا ڈاکو ہیں یا اصل معاملہ شکارپور میں جنگلات کی زمین پر قبضہ کرنا ہے؟ پولیس سرچ آپریشن کے نام پر تگانی جنگل میں گاؤں کے گاؤں خالی کروارہی ہے۔ درختوں کو کاٹا جارہا ہے اور آگ لگائی جارہی ہے تاکہ ڈاکوں کو پکڑنے میں آسانی ہو۔ حکومت کو اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقت کو منظر عام پر لانا چاہئیے۔

پی کے ایم ٹی کے رکن شوکت علی نے بتایا کہ ”پاکستان دودھ پیدا کرنے میں دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ اوردودھ ہماری خوراک کا ایک اہم جزو ہے۔جبکہ ضلع شکارپور میں چارہ کم ملنے کی وجہ سے دودھ کی پیداوار میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ دوسری جانب دودھ کے شعبے میں کمپنیوں کا کردار ہے جو ٹی وی اور اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے سے یہ باور کرنے میں جتے ہوئے ہیں کہ کھلا دودھ انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ جانوروں کے لیے چارہ اگانے میں کسان عورتیں پیش پیش ہیں لیکن اصلمنافع دودھ کی کمپنیاں حاصل کر رہی ہیں۔
پاکستان کسان مزدور تحریک مطالبہ کرتی ہے کہ

۔ خوراک اور زراعت کے شعبے میں کمپنیوں کے قبضے سے نجات کے ساتھ زرعی قوانین پر پابندی لاگو کی جائے جو کہ چھوٹے اور بے زمین کسانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
۔ کسانوں کے آبائی زمین سے بے دخلی پر مکمل پابندی عائدکی جائے۔ ترقیاتی کاموں کے بہانے زمین اور وسائل پر سرمایہ کاروں اور سرمایہ داروں کے قبضے کو فروغ دینا بند کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ، مقامی اور قبائلی لوگوں کے جنگلات، شاملات اور دیگر قدرتی وسائل پر مقامی حقوق کو لازم کیا جائے۔
۔ منصفانہ زمینی بٹوارے کو یقنی بنایا جائے تاکہ بے زمین کسانوں اور زرعی مزدور عورتوں کو زمین اور خوراک کی خودمختاری یقینی ہو۔
۔ ڈیری اور لائیو سٹاک کے شعبے میں مقامی اور غیر ملکی نجی سرمایہ کاری کو ختم کریں اور ان پالیسیوں پر عمل درآمد کریں جو چھوٹے لائیوسٹاک اور دودھ پیدا کرنے والوں کے حق میں ہوں۔

جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک؛

English Press Release

MILKING US DRY: PAKISTAN’S DAIRY SECTOR IN CRISIS (#PEASANTSRISEUP) 

For more than a decade, corporates have been advancing their control over Pakistan’s livestock and dairy sector which as of 2016 data, contributes to approximately 56% of the country’s agriculture sector GDP.
Trade agencies like the AUSAID and USAID have pledged their guidance and support for various dairy development programs, breed improvement programs and livestock management programs. While multinational companies like Nestle and Engro hold the monopoly in packaged milk products and have been campaigning against fresh milk, its biggest competitor is based in the informal retail market. While 93% of the consumers still buy fresh/raw milk, the Punjab Food Authority will strictly be implementing the Milk Pasteurization Law by 2022. Under this law, the sale of raw milk will be a criminal offence. But this concern to provide consumers with pure unadulterated or tested milk seems to be geared towards benefiting dairy corporations at the expense of the informal milk sector largely in the hands of small and landless farmers (as producers) and a very wide network of milk vendors spread across the country both in rural and urban areas.
These multinationals have also been employing the rhetoric of Creating Shared Value (CSV) by training farmers, carrying out capacity building at the household and community level and claims to empower rural women, while also introducing expensive, high-tech equipment in the sector and attracting sizeable foreign and local investments. By doing so, these corporations are effectively ousting small producers out of the highly competitive market.

This episode is co-presented by PAN Asia Pacific – PANAP, Roots For Equity and Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek (PKMT)