بھوک کا عالمی دن 2022: خوراک کی خود مختاری اور موسمیاتی انصاف کی جدوجہد

پریس ریلیز 16 اکتوبر 2022

زراعت اور خوراک کا عالمی ادارہ فاؤ دنیا کی اشرافیہ کے ساتھ ملکر آج خوراک کا عالمی دن منا رہی ہے جبکہ چھوٹے اور بے زمین کسانوں، شہری اور دیہی مزدوروں اور عوام کے لیے یہ بھوک کا عالمی دن ہے۔ پوری دنیا میں بھوک اور قحط کی موجودہ صورتحال عالمگیریت کے بھیانک چہرے کی عکاسی کرتا ہے۔

عالمی سطح پر بھوک کے اعداد و شمار ایک بار پھر بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ 2021 میں، دنیا بھر میں تقریباً 2 ارب 30 کروڑ افراد غذائی کمی اور غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور تقریباً 83 کروڑ افراد بھوک کا شکار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جولائی 2022 میں 82 ممالک شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں جس سے 34 کروڑ 50 لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہیں۔

اس بھوک کو مزید ہوا سامراج کا پیدا کردہ موسمی بحران دے رہا ہے۔ صرف پاکستان میں حالیہ مون سون کی شدید بارشوں کے نتیجے میں 80 لاکھ ایکڑ سے زائد کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مال مویشی، بڑی تعداد میں گندم کا ذخیرہ اور جانوروں کا ذخیرہ شدہ چارہ 8 ہفتوں کے دوران ہونے والی مسلسل بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ضائع ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل ہے۔ اقوام متحدہ ادارہ برائے انسانی فلاح نے عندیہ دیا ہے کہ تقریباً 57 لاکھ سیلاب زدگان کو اگلے تین ماہ میں خوراک کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق حالیہ سیلاب سے پہلے بھی 16 فیصد آبادی کم یا شدید غذائی کمی اور عدم تحفظ کا شکار تھی۔

ہمارے نظام خوراک میں خرابی اور بھوک کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کے بظاہر بہت سے اسباب ضرور ہیں لیکن ان سب کا تعلق سامراجیت سے ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کی ہوس میں، زرعی کیمیائی کمپنیوں نے انتہائی مضر زرعی کیمیائی مادوں پر مبنی کھادوں اور کیڑے مار ادویات اور دیگر زرعی مداخل کے استعمال اور جینیاتی تبدیلی و دیگر کے ذریعے ہماری زمینوں کی تباہی اور اس کی پیداواری صلاحیت کو کم کیا ہے۔ آج ہماری زمین زہریلے کیمیائی مادوں کی عادی ہوگئی ہے اور اس طرح ان کمپنیوں کی محتاج ہوگئی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، عالمی بینک (ورلڈ بینک)، عالمی تجارتی ادارہ (ڈبلیو ٹی او) جیسے اداروں نے آزاد تجارت کی پالیسیوں کو بڑھاوا دیا ہے جس کی وجہ سے چھوٹے اور بے زمین کسانوں کی زندگی شدید متاثر اور محال ہو گئی ہے۔

مزید یہ کہ سامراجی جارحیت کے تحت مسلط کردہ جنگیں خوراک کی پیداوار کو شدید متاثر کر رہی ہیں۔ امریکہ، روس اور چین کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور ایک دوسرے پر بالادستی حاصل کرنے کی جنگی کشمکش جاری ہے۔ امریکہ کی حمایت کی وجہ سے نیٹو، جو کہ کئی ممالک کی افواج پر مبنی اجارہ ہے یوکرائن کی جنگ کو ہوا دے رہا ہے جس کا مقصد یورپ کو کمزور کر کے اسے امریکہ کے تابع کرنا اور ساتھ ہی ساتھ عالمی دنیا میں روس کو تنہا کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اسی طرح کے ہتھکنڈے امریکہ نیٹو کی مدد سے چین اور تائیوان کے درمیان بھی استعمال کر رہا ہے تاکہ ان کے درمیان تنازعہ کو مزید بڑھاوا دیا جا سکے۔ نئی صدی میں نظر آنے والی امریکی سرپرستی میں جنگوں نے پہلے ہی لاکھوں افراد کو لیبیا، عراق، شام، یمن، افغانستان اور دنیا کے دیگر حصوں کو غربت، بھوک اور محرومی کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

جنگی جاریت اور منافع کی ہوس نے موسمی سامراجیت کو جنم دیا ہے جس کے نیتجہ میں ایک کے بعد ایک موسمیاتی تبدیلی کے واقعات سے لاکھوں ایکڑ قابل کاشت زمین تباہ ہو رہی ہے۔ موسمیاتی سامراجیت سرمائے کی اجارہ داری کی بنا پر ہونے والی رکازی ایندھن (فوسل فیول) پر مبنی بے تحاشہ صنعتی پیداوار (ہائپر انڈسٹریل پیداوار) حاصل کرنے کا شاخصانہ ہے۔ یہ تباہ کن زہریلی زرعی صنعتی پیداوار کلائمٹ سمارٹ ٹیکنالوجی جیسے ناموں پر جھوٹے اور غیر پائیدار حل پیش کرتی ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ بھوک کا سامنا کرنے والی قومیں غیر ملکی غذائی امداد کے ساتھ ساتھ دہیکل غیر ملکی کمپنیوں کے منافع میں اضافہ کرنے والی ٹیکنالوجیوں کی محتاج ہو جائیں۔ پچھلے چند مہینوں میں بھارت، بنگلہ دیش، فلپائن، جاپان، سوڈان، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ امریکہ میں بھی بھیانک موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آفات کے واقعات رونما ہوتے نظر آئے ہیں۔ یقیناً اس بحران سے سب سے زیادہ کسان اور مزدور متاثر ہوئے ہیں۔ اس بات کی اشد اور فوری ضرورت ہے کہ سامراج کی ان تسلط پسند قوتوں کے خلاف آواز اٹھانے اور خوراک کی خودمختاری واپس پانے کے لیے عوام اور بالخصوص عورتیں متحد اور ہم آواز ہو کر ایک عالمی جدوجہد کا آغاز کریں۔

اس موقع پر پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتی ہے۔ حکومت کو ایسی پالیسیاں تیار کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے جو زرعی کیمیائی کمپنیوں کی زنجیروں سے آزاد ہوکر خود انحصاری اور ماحول دوست زرعی پیداوار پر مبنی پیداواری نظام کے اپنانے کو یقینی بنائے۔ خوراک کے عدم تحفظ کی سنگین صورتحال کے پیش نظر، کسانوں کو مقامی دیسی بیجوں اور پائیدار زرعی مداخل کی مفت فراہمی کی جائے جس سے ملک کی غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ پی کے ایم ٹی خوراک کی خود مختاری حاصل کرنے کی جدوجہد میں ثابت قدم ہے!

جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک