مہم برائے مال مویشی دودھ : بچاؤ دیہی انمول اثاثے – ریڈیو پیغامات

پاکستان کسان مزدور تحریک نے”  بچاؤ دیہی انمول اثاثے”  پاکستان میں دودھ اور مال مویشی شعبہ پرکمپینوں کے قبضہ کے خلاف مہم کا آغاز کیا ہے۔ اس مہم کے تحت  پی کے ایم ٹی  مست ایف ایم 103 ملتان سے 3 ریڈیو پیغامات نشر کر رہی ہے۔ پی کے ایم ٹی قیمتی حیاتیاتی تنوع پرکمپنیوں کے قبضہ کے خلاف لئے مہم چلا رہی ہے۔ فی الحال، چھوٹے اور بے زمین کسان قدرتی، خالص، تازہ دودھ کی پیدا کرنے والے  گروہ اور  سپلائر ہیں۔لیکن اب  اس کا مقابلہ میں مغربی ممالک کی سامراجی کارپوریٹ پالیسیوں کے تحت کیا جا رہا ہے۔ سبز انقلاب کے بعد عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) اور اس کے معاہدوں مثلاً  ٹرئیپس اور اب ایس پی ایس اور ٹی بی ٹی معاہدے  کسانوں پر تباہ کن اثرات مرتب  کر رہے ہیں۔

پاکستان میں دو زرعی وسائل بہت اہمیت کے حامل ہیں  ایک گندم اور دوسرا مال مویشی۔  یہ  شعبہ چھوٹے اور بے زمین کسان اور خاص طور پر کسان عورتوں کے لیے براہ   راست آمدنی کا  ذریعہ ہے۔ مال مویشی کسانوں کے لیے بینک اکاؤنٹ جیسا درجہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ روزمرہ کے گھریلو اخراجات کیلئے بھی اہم وسیلہ تصور کیے جاتے ہیں ۔ مگر اب ملٹی نیشنل کمپنیاں چھوٹے کسانوں کے اس اثاثہ پر قبضہ کے در پر ہیں کیونکہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ڈبوں میں بند غیر محفوظ  دودھ کے کاروبار کو فروغ دیکر چھوٹے اور بے زمین کسانوں سے ان کا روزگار چھیننا چاہتی ہیں۔

آج کل اشتہاروں کے ذریعے تازہ، کھلے  اور قدرتی دودھ کے مضر صحت ہونے کا پرچار کیا جارہا ہے۔ جبکہ یہی دودھ صدیوں سے ہماری صحت اور روزگار  کا ضامن رہا ہے۔ ضرورت سرکاری سطح  پر اسی دودھ کے نظام  کو بہتر کرنے کی ہے، سرکار کا مال مویشی اور دودھ کے شعبے میں   کمپنیوں کی اجارہ داری قائم کرنے اور کسانوں کا روزگار چھیننے میں کمپنیوں کا سہولت کار بننے کی نہیں۔ حکومت پاکستان کو خوراک کی خود مختاری کے منصوبے پر عمل پیرا ہونا  چاہیے نہ کہ اسے گروی رکھنے پر۔

پاکستان دودھ کی پیداوار میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے اور تقریبا 94 فیصد چھوٹے اور بے زمین کسان اس شعبہ سے جڑے ہوئے ہیں مگر اب مال مویشی اور دودھ سے جڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے روزگار کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ عوام دشمن سامراجی پالیسیوں کے تحت ورلڈ بینک جیسے ادارے مالی معاونت فراہم کرتے ہیں تاکہ ملکوں کی اقتصادیات پر کمپنیوں کا قبضہ ہوسکے۔لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم سب اپنے ملک کے بیش بہا اثاثہ جات  مال مویشی، بیج، زرعی اجناس، دودھ اور دودھ سے حاصل صحت مند اور متوازن خوراک کے تحفظ کےلئے ، کسانوں کے حق کےلئے مل کر آواز اٹھائیں۔

مہم برائے مال مویشی دودھ : بچاؤ دیہی انمول اثاثے – پمفلٹ

پاکستان کسان مزدور تحریک کا تیار کردہ پمفلٹ تلاش کریں۔سندھ اور پنجاب کے 15 اضلاع میں تقریباً ایک لاکھ تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ پی کے ایم ٹی کے ممبران عوامی مقامات پر تقسیم کر رہے ہیں اس کا مقصد پورے ملک میں پانچ لاکھ پمفلٹ تقسیم کرنا ہے۔

#SaveOurInvaluableRuralAssets

 

بچاؤ دیہی انمول اثاثے؛ مہم برائے مال مویشی و دودھ

پریس ریلیز| 8 مارچ 2023

پاکستان کسان مزدور تحریک نے مزدور عورتوں کے عالمی دن 8 مارچ، 2023 کو ”بچاؤ دیہی انمول اثاثے؛ مہم برائے مال مویشی و دودھ“ کا آغاز کیا ہے۔ اس مہم کا مقصد حکومت کے تازہ قدرتی کھلے دودھ پر مکمل پابندی کے قانون، دودھ اور مال مویشی کے شعبے میں بڑھتی ہوئی آزاد تجارتی پالیسیوں اور اس شعبہ پر ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے قبضے کے خلاف کسان و عوام کو خبردار کرتے ہوئے اپنے خوراک و روزگار اور ماحول کے بچاؤ کے لیے عوام کو متحرک کرنا ہے۔


پنجاب اور سندھ فوڈ اتھارٹیوں نے دودھ کے شعبہ میں بڑھ چڑھ کر قانون سازی شروع کی ہے۔ اس حوالے سے پنجاب اور سندھ فوڈ اتھارٹی نے 2018 میں پیور فوڈ قانونی ضابطے (ریگیولیشنز) جاری کیے ہیں۔جس کے فوری اطلاق کے لیے اب پنجاب حکومت لاہور اور اس کے بعد پورے پنجاب میں تازہ قدرتی کھلے دودھ پر مکمل پابندی کے لیے بار بار اعلانات کررہی ہے۔ ان قانونی ضابطوں کے تحت تازہ قدرتی کھلے دودھ کو پیسچورائز کرنے کے بعد ہی فروخت کیا جاسکتا ہے۔ وہ کاروبار جو کہ دودھ اور دودھ سے بنائی جانے والی دیگر اشیاء کو تیار کررہے ہیں ان سب کو حکومت سے فروخت کا لائسنس لینا ہوگا۔

   

اس قانون کے پیچھے کونسے طاقت ور گروہوں کا ہاتھ ہے؟ یہ قوانین عالمی تجارتی ادارہ ڈبلیو ٹی او کے تحت سینیٹری اور فائیٹو سینیٹری معاہدہ اور ٹیکنیکل بیریئرز ٹو ٹریڈ کو مد نظر رکھ کر بنائے گئے ہیں۔ ان قوانین کو دراصل بڑی بڑی دیو ہیکل دودھ اور مال مویشی کے سرمایہ دار اور سرمایہ کار کمپنیوں کی ایما پر کیا جارہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر دودھ اور دودھ سے تیار کردہ مکھن، پنیر، ملائی اور دیگر مصنوعات یہی اجارہ دار کمپنیاں تیار اور فروخت کرتی ہیں اور بے تحاشہ منافع کماتی ہیں۔ ان کے بالمقابل چھوٹے اور بے زمین کسان گھرانے ہیں جن میں خاص کر اس شعبے سے منسلک مزدور کسان عورت کی سخت محنت ہمارے پورے ملک کو دودھ اور گوشت جیسی انمول غذا فراہم کرتے ہیں۔ دراصل اجارہ دار کمپنیاں ان ہی لاکھوں گھرانوں کی روزی اور خوراک پر ڈاکہ ڈال رہی ہیں۔ دیہی کسان مزدور عورت کا زراعت بالخصوص مال مویشی اور دودھ کی پیداوار میں کلیدی کردار کی وجہ سے ہی اس مہم کا آغاز مزدور عورتوں کے عالمی دن 8 مارچ سے کیا جارہا ہے۔ Continue reading

بھوک کا عالمی دن 2022: خوراک کی خود مختاری اور موسمیاتی انصاف کی جدوجہد

پریس ریلیز 16 اکتوبر 2022

زراعت اور خوراک کا عالمی ادارہ فاؤ دنیا کی اشرافیہ کے ساتھ ملکر آج خوراک کا عالمی دن منا رہی ہے جبکہ چھوٹے اور بے زمین کسانوں، شہری اور دیہی مزدوروں اور عوام کے لیے یہ بھوک کا عالمی دن ہے۔ پوری دنیا میں بھوک اور قحط کی موجودہ صورتحال عالمگیریت کے بھیانک چہرے کی عکاسی کرتا ہے۔

عالمی سطح پر بھوک کے اعداد و شمار ایک بار پھر بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ 2021 میں، دنیا بھر میں تقریباً 2 ارب 30 کروڑ افراد غذائی کمی اور غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور تقریباً 83 کروڑ افراد بھوک کا شکار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جولائی 2022 میں 82 ممالک شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں جس سے 34 کروڑ 50 لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہیں۔

اس بھوک کو مزید ہوا سامراج کا پیدا کردہ موسمی بحران دے رہا ہے۔ صرف پاکستان میں حالیہ مون سون کی شدید بارشوں کے نتیجے میں 80 لاکھ ایکڑ سے زائد کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مال مویشی، بڑی تعداد میں گندم کا ذخیرہ اور جانوروں کا ذخیرہ شدہ چارہ 8 ہفتوں کے دوران ہونے والی مسلسل بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ضائع ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل ہے۔ اقوام متحدہ ادارہ برائے انسانی فلاح نے عندیہ دیا ہے کہ تقریباً 57 لاکھ سیلاب زدگان کو اگلے تین ماہ میں خوراک کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق حالیہ سیلاب سے پہلے بھی 16 فیصد آبادی کم یا شدید غذائی کمی اور عدم تحفظ کا شکار تھی۔ Continue reading

معاشی بحران سے موسمی بحران تک

اگست 30، 2022 | پریس ریلیز

پاکستان کا شمار پچھلے کئی برسوں سے ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جو موسمی بحران کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ یہ موسمی بحران قدرتی نہیں بلکہ سامراجی نظام کا نتیجہ ہے اور جب تک سامراجی تسلط ختم نہیں ہوتا اس میں بہتری ممکن نہیں۔ مگر پچھلے چند سالوں میں جو موسمی بحران کے نتیجے میں تباہی دیکھنے میں آئی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ جس میں 2007 سے لیکر 2022 تک تقریباً ہر سال آنے والے سیلاب شامل ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی حالیہ شدید بارشوں کی تباہ کاریوں کو اب تک کے اندازے کے مطابق 2010 کے سیلاب، جس میں 2 کروڑ سے زائد افراد متاثر اور 2 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، سے زیادہ تباہ کن مانا جارہا ہے جبکہ دریائی سیلابی ریلوں کا ابھی ملک کے بیشتر حصوں سے گزرنا باقی ہے۔

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق ملک بھر میں حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو سیلاب کی شدت نے سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا سمیت پورے ملک میں ہزاروں بستیوں اور خاندانوں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے تو دوسری طرف ان کے مکانات، مال مویشی، فصلوں اور دیگر کاروبار کو شدید نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے وہ بے سرو سامان اور بے یار مددگار ہوگئے ہیں۔ خاص طور پر سندھ کی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہونے کے دھانے پر پہنچ چکی ہیں جس میں چاول، مکئی، کپاس، گنا اور سبزیاں سر فہرست ہیں۔ پی ڈی ایم اے، سندھ کی کل (29 اگست) کی رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ کے بیشتر اضلاع حالیہ بارشوں سے نہ ہی صرف شدید متاثر ہوئے ہیں بلکہ یہاں کی زندگی انتہائی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے جس میں دادو، خیرپور، شہید بے نظیر آباد (نواب شاہ)، لاڑکانہ، نوشہرو فیروز، شکارپور، سانگھر، کشمور، گھوٹکی اور میرپور خاص سمیت دیگر اضلاع شامل ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق سندھ میں اب تک 402 افراد جاں بحق، 1,055 افراد زخمی اور 15,435 مال مویشی ہلاک ہوگئے۔ 2,53,208 مکان مکمل طور پر ڈھ گئے جبکہ 6,31,389 مکانوں کو جزوی نقصان پہنچا۔ صرف صوبہ سندھ کی 3,269,608 ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا اور فصلیں تباہ ہوئیں۔ ضلع لاڑکانہ کے 80 فیصد مکانوں اور 90 فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ حالیہ بارش کے نتیجے میں 7,133,650 افراد، 1,191,356 گھرانے متاثر ہوئے جبکہ 4,098,053 افراد بے گھر ہوئے۔ ڈپٹی کمشنر گھوٹکی محمد عثمان عبداللہ کے مطابق صرف ضلع گھوٹکی میں اب تک 8 فوتگیاں اور 39 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ 3,46,863 ایکڑ زمین پر مشتمل فصلیں اور 4,044 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ 9,974 گھروں کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ 13,451 خاندان اور 72,590 افراد متاثر ہوئے ہیں۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار حکومت سندھ کے محکموں کی جانب سے جاری کردہ ہیں اور اب تک کی رپورٹ کی بنیاد پر ہیں جبکہ حقیقی واقعات کو منظر عام پر نہ لانے اور وقت کے ساتھ ان اعداد و شمار کے بڑھ جانے کا خطرہ اور اندیشہ ہے۔ ان بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا اصل اندازہ اور تخمینہ یہ آفت گزرجانے کے بعد ہی لگایا جاسکے گا۔ دیگر ذرائع کے مطابق صوبہ سندھ کے کم از کم دیہی علاقوں میں کوئی کچا مکان ایسا نہیں ہے جو متاثر نہ ہوا ہو۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بیماریاں پھوٹ رہی ہیں جو ان کی موت کا سبب بھی بن رہی ہیں۔ کچے کے ساتھ ساتھ پکے کے علاقے بھی زیر آب ہیں اور ہزاروں لوگ اس وقت امداد کے انتظار میں کھلے آسمان تلے سڑکوں پر شب و روز گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) کے مختلف اضلاع کے ممبران کے مطابق سندھ کے بعض اضلاع میں کوئی سرکاری امداد ابھی تک نہیں پہنچی ہے جو کہ حکومتی نااہلی اور بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

Continue reading

Climate-Emergency Catastrophe:Small and Landless Farmers and their Families most Impacted!

All through August 2022, various districts in Sindh and Punjab have been heavily affected by the very long monsoon season marked with lashing rain of high intensity. The monsoon rains started in July, and with Balochistan and then Karachi being the first to be impacted, flash floods, rushing water from mountains, and constant rains have impacted millions of people in rural communities across many districts in Sindh and Punjab.  People have lost their homes, animal shelters, livestock; standing crops have been wiped out with huge loss of cotton and rice crop. Even though there had been prediction of intense weather spell for many months it seems that the government was ill-prepared to meet the intense destruction that the climate-emergency has unleashed. It also needs to be remembered that Climate Emergency is not a natural disaster: it is based on the intensely destructive fossil-fuel dependent capitalist mode of production. It also needs to be iterated that under the Paris Agreement, the first world rich countries continue to baulk at agreeing to take the responsibility of providing compensation for loss and damage based on climate catastrophes emitting from climate change.

Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek (PKMT) members in various districts of Sindh (Shikarpur, Ghotki, Khairpur, Badin and Tando Mohammad Khan) and Rajanpur, Punjab have been heavily impacted. Many of our members that we have been able to contact have left their villages and are either staying in shops, schools, on the roadside or with relatives. All cooking fuel (wood, animal dung) is lost or wet; many are going hungry and have very limited resources at hand. Most of their saved wheat and rice grains have been lost, also. Some have also lost their livestock.

The PKMT Steering Committee held an emergency meeting and few actions have been agreed upon.

A press conference on Aug 30 in Sukkur Press Club is going to be held to emphasise government’s criminal negligence in safeguarding against the current situation and lack of relief initiatives as well as for demanding immediate government support, as well as develop mobilization on holding rich industrialized countries accountable for the continuous debilitating destruction, debt, hunger and misery faced by the poorest most vulnerable populations, especially women, children, elderly and the disabled persons.

A solidarity visit of PKMT members from Punjab and Khyber Pakhtunkwa will happen as soon as the rain stops and allows passage possible. The group will also be able to assess what is needed to help out PKMT members in need.  We are also thinking ahead for October- November when it will be the wheat sowing season. If farmers are not able to carry out sowing in November, there will be an acute shortage of wheat further exacerbating the current crisis.

       

سامراجی ہتھکنڈے اور موجودہ معاشی بحران: مزدور تحریک کے امکانات

پریس ریلیز؛ 22 فروری 2022

دنیا بھر میں یکم مئی، 1886 میں شکاگو کے مزدوروں کی جدوجہد کی یاد میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) اور روٹس فار ایکوٹی نے ماہ رمضان کے پیش نظر اس سال یکم مئی کا جلسہ 22 مئی، 2022 کو حطار انڈسٹریل اسٹیٹ ہری پور میں منعقد کیا۔ جس میں بڑی تعداد میں مزدور کسان رہنماؤں اور کسان دوست ساتھیوں نے شرکت کی۔

پاکستان میں جاری معاشی بحران کا سبب کورونا وبا نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو کہ بحرانوں میں بھی اپنے منافع کے حصول کو اولیت دیتا ہے، کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شدید معاشی اور سماجی مسائل میں پسے ہوئے مزدور طبقہ کو عالمی مالیاتی اداروں خصوصاً آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس طبقے کے لیے صحت، تعلیم اور بہتر روزگار کا حصول پہلے ہی جان جوکھوں کا کام تھا مگر بڑھتی ہوئی مہنگائی جس میں کھانے پینے کی ضروری اشیاء چینی، آٹا، چینی، دودھ، مرغی، سبزی، گوشت، آلو، ٹماٹر، تیل سمیت دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہوشروبا اضافہ کے ساتھ ساتھ پیٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے پسے ہوئے طبقات کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا اندازہ اس بات سے دیکھا جاسکتا ہے کہ اپریل 2022 میں گزشتہ 11 سالوں میں سب سے زیادہ مہنگائی 13.37 فیصد نوٹ کی گئی۔ جبکہ بے روزگاری میں مالی سال 2019-2020 میں بے روزگاری کے شکار 5.80 ملین افراد سے بڑھ کر مالی سال 2020-2021 میں 6.65 ملین افراد ہوگئے۔
بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کے خاتمہ کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی اقدام تو کجا حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے ملک دشمن اور عوام دشمن معاہدہ کے تحت مزید معاشی پستی کی جانب گامزن ہے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ملکی قرضوں میں مزید اضافہ کرتی جارہی ہے۔ حکومت کی ترجیح عوامی مسائل کے حل کے بجائے آئی ایم ایف کی ایماء پر اسٹیٹ بینک کو حکومتی تحویل سے آزاد کرنے کے قانون کا اجراء جیسی ملک و عوام دشمن پالیسیوں کے ذریعہ پاکستان میں نوآبادیاتی شکنجے کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ آزاد تجارتی پالیسی کے تحت سرکاری شعبہ میں چلنے والی صنعتوں اور اداروں کو نجی شعبے میں دے دیا گیا جس سے بڑی تعداد میں مزدوروں کی بے روزگاری میں اضافہ اور سرکاری سہولیات میں کمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ Continue reading