International Day of Rural Womens; دیہی عورتوں کا عالمی دن

پریس ریلیز 

15، اکتوبر، 2018

اس سال ” دیہی عورتوں کے عالمی دن کو مناتے ہوئے 20 سال ہو گئے ہیں۔ ان بیس سالوں میں دیہی عورتوں پر کیا بہتر اثرات سامنے آئے ہیں۔ افسوس ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر بھوک بڑھتی جا رہی ہے۔ 2016 میں 801 ملین لوگ بھوکے تھے اور صرف ایک سال میں ان کی تعداد 821 ملین ہو گئی ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر یہ ایک بھیانک سچ ہے کہ ان لوگوں میں 60 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔ یہ حالات یقیناًان طاقتور کرداروں کی وجہ سے ہے جو زرعی پیداواری نظام پر قابض ہیں۔ ان میں جاگیرداری، سرمایہ داری اور پدرشاہی طاقتیں سب سے آگے ہیں۔ دنیا میں کیمیائی صنعتی زراعت نے نہایت تباہ کاری برپا کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) اور روٹس فار ایکوٹی دیہی عورتوں کا عالمی دن پیسٹی سائیڈ ایکشن نیٹورک (پین اے پی) اور دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ مل کر یکم تا 16 اکتوبر نوجوانوں کی قیادت میں زرعی ماحولیات اور خوراک کی خودمختاری کے لیے جدوجہد ’’یوتھ آن دی مارچ: بلڈنگ گلوبل کمیونٹی فار ایگروایکولوجی اینڈ فوڈ سورنٹی!‘‘ کے عنوان سے منارہی ہے۔

پی کے ایم ٹی اور روٹس فار ایکوٹی نے دیہی عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر گھوٹکی، سندھ میں ایک جلسے کا اہتمام کیا جس میں پی کے ایم ٹی کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور عورتوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پی کے ایم ٹی، گھوٹکی کی رکن زریت نے کہا کہ پاکستان کی تقریباً دو تہائی آبادی دیہات میں رہتی ہے جہاں زرعی شعبہ میں کام کرنے والے مزدورں میں عورتوں کا تناسب 74 فیصد ہے جو کپاس، گنا، گندم اور چاول جیسی اہم فصلوں کی کٹائی، چنائی، بیجائی اور دیگر کام سرانجام دیتی ہیں۔ روٹس فار ایکوٹی کی تحقیق کے مطابق سندھ اور پنجاب میں کپاس چننے والی عورتیں 200 سے 300 روپے فی من اور دیگر فصلوں پر 100 سے 150 روپے یومیہ اجرت پر آٹھ سے دس گھنٹے سخت سردی اور گرمی میں ایسے ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں جہاں انہیں ہر قدم پر صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2013 میں جاری ہونے والی آخری قومی غذائی سروے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں50.4 فیصد عورتیں خون کی کمی، 41.3 فیصد وٹامن اے ، 66.8 فیصد وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی 2018 میں صنفی امتیاز پر جاری ہونے والی رپورٹ سے سندھ میں عورتوں میں غذائی کمی کی تشویشناک صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سندھ میں دیہی عورتوں میں غذائی کمی کا تناسب 40.6 فیصد ہے جبکہ افریقی ملک نائیجیریا کی دیہی عورتوں میں غذائی کمی کا تناسب 18.9 فیصد ہے۔

پی کے ایم ٹی سندھ کے صوبائی رابطہ کار علی نواز جلبانی نے کہا کہ نیولبرل پالیسیوں کے تحت ہائبرڈ اور جینیاتی فصلوں پر مشتمل غیر پائیدار کیمیائی طریقہ پیداوار کا فروغ ناصرف کسانوں کو منڈی کا محتاج بنا رہا ہے بلکہ بیجائی سے چنائی یا کٹائی کے مراحل تک سب سے زیادہ فصلوں پر کام کرنے والی دیہی عورتوں کی زندگیوں کو بھی شدید خطرات میں مبتلا کررہا ہے۔ خصوصاً کپاس کی فصل پر کام کرنے والی عورتیں خارش، دمہ اور دیگر جلدی بیماریوں کا شکار جاتی ہیں جس پر بیماریوں اور کیڑوں سے بچاؤ کے لیے بھاری مقدار میں زہریلے اسپرے کیے جاتے ہیں جو شدید ماحولیاتی آلودگی کا سبب بھی ہے۔ کپڑے برآمدی صنعت جو زرمبادلہ کے حصول کا اہم ترین زریعہ ہے، ان دیہی عورتوں کی مرہون منت ہے جن کی بہبود کے لیے سرکای سطح پر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔

پی کے ایم ٹی کے سابق مرکزی رابطہ کار راجہ مجیب کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ملک سے بھوک ،غربت، غذائی کمی، صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ زمین، بیج اور پانی جیسے اہم پیداواری وسائل پر کسانوں کا اختیار ہو ناکہ جاگیردار، سرمایہ دار اور ان کی زرعی کمپنیوں کا۔ پی کے ایم ٹی دیہی عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر مطالبہ کرتی ہے کہ خوراک کی خودمختاری کے حصول کے لیے زمین کسان مرد و عورتوں میں منصفانہ اور مساویانہ بنیادوں پر تقسیم کی جائے اور پائیدار زرعی ماحولیاتی نظام (ایگرو ایکالوجی) کو فروغ دیا جائے۔
جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک

Internationale Anthem

جاگو جاگو جاگو
جاگو جاگو جاگو
جاگو جاگو جاگو سربہارا
اُٹھو غریب بے نوا
کب تک سہوگے بهائی
ظالم کا استحصال
آؤ ہم غلامی اپنی ٹوڑیں
ہوں آزاد اور رہا
بدلیں یہ ساری دنیا بدلیں
جس میں زور و ظُلم و جفا
یہ جنگ ہماری ہے آخری
ہے اس پر ہی فیصلہ
سارے جہان کے مظلومو
اُٹھو کہ وقت آیا
سارے جہان کے مظلومو
اُٹھو کہ وقت آیا

یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن: مزدوروں جاگو اپنی تقدیر خود لکھو

پریس ریلیز

یکم مئی، 2018

مزدوروں کے عالمی دن یکم مئی کے موقع پر پاکستان کسان مزدور تحریک اور لیبر ویلفیئر سوسائٹی نے حطار، ہری پور، کے پی کے میں ایک جلسہ کا انعقاد کیا۔ جس میں بڑی تعداد میں مزدوروں نے شرکت کی۔ یہ دن 1886 شکاگو کے مزدوروں کی جدوجہد کے تناظر میں منایا جاتا ہے کہ جب مزدوروں نے اپنے حقوق خصوصاًآٹھ گھنٹے کام کے اوقات مقرر کرنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔

پی کے ایم ٹی کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ حکومت عالمی سرمایہ دار اداروں کی ایماء پر ملک کے قیمتی اثاثے کوڑیوں کے مول ملکی اور غیر ملکی سرمایہ داروں کو فروخت کررہی ہے جو مزدوروں میں بیروزگاری اور غربت و بھوک کی بنیادی وجہ ہے۔ حطار میں قائم مستحکم سیمنٹ فیکٹری ایک ایسی ہی مثال ہے جسے غیرملکی کمپنی کو فروخت کردیا گیا جس سے نا صرف فیکٹری کے مزدوروں کو ملنے والی مراعات ختم یا محدود کردی گئیں بلکہ نجی کمپنی کی جانب سے زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لیے پیداوار میں غیر پائیدار اضافے سے علاقے کا ماحولیاتی نظام بھی تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔

لیبر ویلفیئر سوسائٹی کے عہدیداروں کا اس موقع پر کہنا تھا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد مزدورں کی بہبود کا محکمہ صوبائی حکومتوں کو منتقل ہو گیا لیکن اب تک صوبائی حکومتوں کی جانب سے مزدور قوانین اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی جامع پالیسی ترتیب نہیں دی جاسکی ہے۔ خیبر پختونخوا میں ورکرز ویلفیئر بورڈ کے زیر انتظام مزدوروں کے بچوں کے لیے چلنے والے اسکولوں میں معیار تعلیم انتہائی ناقص ہے جہاں بچوں کی کامیابی کا تناسب انتہائی معمولی ہے۔ بورڈ فی بچہ 17,000 روپے خرچ کرتا ہے اس کے باوجود مزدوروں کے بچے معیاری تعلیم سے محروم ہیں۔ ورکرز ویلفیئر بورڈ لیبر کالونیوں میں مزدوروں کو رہائشی کواٹر کے مالکانہ حقوق نہیں دیتا جبکہ ملک میں بقیہ تین صوبوں میں مزدورں کو رہائشی کواٹر کے مالکانہ حقوق دیے جاتے ہیں۔

مقریرین کا کہنا تھا کہ سی پیک کے تحت ملک میں بڑے پیمانے پر خصوصی اقتصادی زون کی تعمیر اور مختلف صنعتوں اور شاہراؤں کی تعمیر جاری ہے لیکن اب تک اس حوالے سے مزدوروں سے متعلق کوئی پالیسی واضح نہیں کی گئی کہ چینی سرمایہ کار کمپنیاں مقامی مزدوروں کو روزگار فراہم کرنے کی پابند ہونگی، ان مزدوروں کے کام کے اوقات کار، اجرت اور دیگر سہولیات کی فراہمی کو یقینی کیسے بنایا جائے گا۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کمپنیوں کی جانب سے مزدوروں سے انتہائی کم اجرت پر آٹھ گھنٹے کے بجائے 12 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ ملک بھر میں صنعت ہو یازراعت یا ماہی گیری شعبہ تقریباً ہر شعبے میں مزدور نجکاری، ٹھیکیداری نظام، کم اجرت اور دیگر بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے غربت و بدحالی کا شکار ہیں۔

سرمایہ داروں کی ہر حکومت صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کے کالا دھن سفید کرنے، ٹیکس میں چھوٹ دینے، سرمایہ کاروں کو مفت زمین فراہم کرنے، انہیں زرتلافی اور دیگر مراعات دینے کے لیے قانون سازی کرتی ہے اور ان قوانین پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے لیکن بات جب مزدوروں اور دیگر پسے ہوئے طبقات کی ہو تو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزید قانون سازی تو دور پہلے سے موجود قوانین پر بھی عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ ملک بھر کے محنت کشوں کو اس استحصال سے نجات اور اپنے حقوق کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ظالم سرمایہ دار طبقہ کبھی بھی مزدوروں کے حقوق دیگا۔

پی کے ایم ٹی اور لیبر ویلفیئر سوسائٹی مطالبہ کرتی ہے کہ نجکاری، ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ کیا جائے، عارضی مزدوروں مستقل کیا جائے، مزدوروں کی کم سے کم اجرت ایک تولہ سونے کے برابر مقرر کی جائے، مزدور عورتوں کو مردوں کے برابر اجرت دی جائے، مزدور آبادیوں میں معیاری تعلیم، آلودگی سے پاک ماحول اور باعزت روزگار فراہم کیا جائے۔ مزدوروں کے لیے پیشہ ورانہ صحت و تحفظ کا کام کی جگہ پر معقول بندوبست کیا جائے۔ تمام مزدوروں کی سوشل سیکورٹی اور ای او بی آئی کے ساتھ رجسٹریشن کو یقینی بنایا جائے۔ مزدوروں کو لیبر کانوینز میں رہائشی کوارٹرز کے مانکانہ حقوق دئیے جائیں۔مزدوروں کی بچیوں کے لیے جہیزگرانٹ سالوں سے بندہے فوری بحال کی جائے۔
جاری کردہ : پاکستان کسان مزدور تحریک اور لیبر ویلفیئر سوسائٹی

سامراجی تجارتی نظام کے خلاف، کسان مزدور اتحاد

پریس ریلیز

تاریخ: 6  مئی 2018

پاکستان کسان مزدور تحریک کا چھٹا سالانہ صوبائی اجلاس ماتلی، ضلع بدین میں منعقد کیا گیا جس میں صوبے بھر سے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ صوبائی اجلاس کے اختتام کے بعد پی کے ایم ٹی اور روٹس فار ایکوٹی کی جانب سے ماتلی پریس کلب کے سامنے ملک میں جاری سامراجی پالیسیوں کے نتیجے میں جاری کارپوریٹ زراعت، زمینی قبضے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔
پی کے ایم ٹی کے رہنماؤں کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے عالمی سامراجی اداروں اور ممالک کی ایماء پر ملک میں مسلط کردہ زرعی و تجارتی پالیسیوں کے نتیجے میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور بھوک، غربت، غذائی کمی، بیروزگاری کا شکار ہوکر زراعت چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ڈبلیو ٹی او کے ٹرپس جیسے معاہدوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے بیج کا ترمیمی قانون اور پلانٹ بریڈرز رائٹس جیسے قوانین کے نفاذ کے ذریعے کسانوں کو ان کے روایتی بیج سے محروم کرکے بین الاقوامی زرعی کمپنیوں کو ان کے استحصال کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ ملک میں غربت کے خاتمے اور پیداوار میں اضافے کے نام پر غیر پائیدار کیمیائی زراعت کا فروغ کسانوں کو مزید غربت میں دھکیل رہا ہے۔ غیر پائیدار طریقہ زراعت کے تحت زیادہ پیداوار حاصل ہونے کے باوجود کسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے جبکہ سارا منافع بیج اور دیگر مداخل بنانے والی دیوہیکل زرعی کمپنیوں کی جیب میں چلاجاتا ہے۔ ان ہی پالیسوں کے نتیجے میں کسان مقامی منڈی میں اپنی پیداوار فروخت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ دوسری طرف غیر پائیدار کیمیائی طریقہ زراعت ناصرف ماحولیاتی اور غذائی نظام کو زہر آلود کررہا ہے بلکہ عوام میں بڑے پیمانے پر مختلف بیماریوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

پاکستان بھر میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور جو پہلے ہی جاگیرداری نظام کے ہاتھوں بدترین استحصال کا شکار ہیں اب ملک بھر میں نیولبرل پالیسیوں کے تحت کارپوریٹ فارمنگ، خصوصی اقتصادی زون، شاہراؤں کی تعمیر اور ترقیاتی منصوبوں کے نام پر بیدخل کیے جارہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے علاقے ہری پور حطار، پنجاب میں ضلع راجن پور کے علاقے رکھ عظمت والا میں کئی دہائیوں سے آباد کسانوں کی زمین سے بیدخلی اس زمینی قبضے کی چند واضح مثالیں ہیں۔ ملک سے بھوک غربت اور غذائی کمی کا خاتمہ صرف اور صرف جاگیرداری نظام کا خاتمہ کرکے زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم سے ہی کیا جاسکتا ہے جو کسانوں کو خوراک کی خودمختاری اور غذائی تحفظ کا ضامن ہوسکتا ہے۔

پی کے ایم ٹی مطالبہ کرتی ہے کہ عالمی سامراجی نیولبرل پالیسیوں کا خاتمہ کرکے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور مرد و عورتوں میں زمین منصفانہ اور مساویانہ طور پر تقسیم کی جائے، زرعی شعبے سے بین الاقوامی زرعی کمپنیوں اور ڈبلیو ٹی او کاکردار ختم کیا جائے کیونکہ کسان کی خوراک کی خودمختاری ہی قومی غذائی تحفظ، پائیدار ترقی اور ملک سے بھوک و غربت کے خاتمے کی ضمانت ہوسکتی ہے۔ ملک بھر کے چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ پیداواری وسائل خصوصاً زمین پر اپنے حق کے لیے متحد ہوکر جدوجہد کو اپنا لائحہ عمل بنائیں۔
جاری کردہ : پاکستان کسان مزدور تحریک

29 March, Day of the Landless

Press Release

29 March 2018

The Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek (PKMT) and Roots for Equity in collaboration with the Asian Peasant Coalition (APC) and the other Asian organizations have marked the Day of Landless under the theme “Peasants of the world: intensify our struggle for Land and Life!”

The Day of the Landless is observed globally to highlight the struggle of farmers for land and other natural resources as they have been forcefully evicted from their land, despite the fact that they have inhabited these lands for generations’. The numbers of countries including Pakistan, India, Bangladesh, Sri Lanka, Nepal, Mongolia, Cambodia, Malaysia, Philippine, Thailand, and Indonesia have held various events to mark this day.

PKMT has lodged a protest against the pervasive land grabbing and landlessness in Pakistan on the day of landless at the Hyderabad Press Club, Hyderabad, in which the small and landless farmers from different districts of the province have participated. The PKMT Sindh Coordinator, Ali Nawaz Jalbani spoke on this event emphasizing the invaluable contribution of farmers to our communities. He pointed out that small and landless farmers not only provide food to the people through their hard work but are also responsible for export of agricultural products that yields valuable foreign exchange. But even in spite of them feeding the country, they suffer from severe malnutrition, hunger and poverty; no doubt this condition is a result of massive landlessness among farmers. In Pakistan, feudal lords, the elite and rich farmers own 45 percent of agriculture land. This is the critical reason that a country that which has high food product, tragically still comes on top when it comes to infant death statistics.

Allahdino, a PKMT member pointed out that “We the landless farmers are forced off land, evicted from our villages, losing our livelihood, and community forced to work as wage labor in towns and cities under inhuman conditions. With no food grains, every-day hunger is the mode of the day. Contract farming is on the rise, where farmers are being forced to work as part of an assembly line, producing at the behest of agro-chemical corporations who produce not food but profitable items such as sugar cane, livestock fodder, and agro fuels.

According to Sony Bheel, patriarchy is a hard cruel reality. Women, have very few rights, and as agricultural women workers these women face intense structural poverty. They country’s food security in the forms of grains or vegetables, dairy or livestock production is absolutely not possible without rural women’s hard physical labor. However, women a major part of the landless are not even recognized as farmers and face exploitation at the hand of both capitalists and feudal lords. The increasing chemical intensive agriculture is responsible for not only destroying biodiversity but also intoxicating the food chain system which impacts women and girl children immensely. It is because women and girls work the most in cash crop harvesting be it cotton or maize or vegetable picking. Hence the landless, especially women landless suffer the most from multiple forms of exploitations, discriminations and oppressions.

The members of PKMT from Ghotki and Badin, Mohammad Sharif and Mohammad Ramzan said that in Pakistan, farmers are facing oppression and deprivation due to neoliberal policies of capitalist countries, unfair land policies and corporate agriculture. In the name of development and innovation; motorways, Special Economic Zones, energy and other projects are being established, all which are forcing land evictions, depriving farmers of their land and livelihood.

There are many such examples: In Hattar, Haripur, KPK, more than a 1000 acre of land has been allotted for the extension of Special Economic Zone, and in Peshawar the construction of Northern bypass project. In Punjab, 6,500 acres of land is being provided to foreign seed companies. In Rajanpur district, the Government of Punjab is promoting forest cultivation for trade through public private partnership; inevitably farmers are being evicted, others forced into contract farming with corporations. In Khairpur, Sindh, 140 acres of land has been used for Special Economic Zone. These are the clear examples of the oppression present due to land grabs and exploitations faced by the small and landless farmers in the country.

Saleem Kumar, the Tando Mohammad Khan, Coordinator, PKMT stressed the point that instead of distributing land to farmers, the government is promoting foreign investors, allocating land to the corporate sector, steps that further erode the sovereignty, well-being and prosperity of the people of Pakistan.

Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek has made food sovereignty its critical most demand with right to land resonating as the loudest call for gaining social and economic justice.

PKMT’s struggle against imperialist globalization and feudalism challenges land grabbing, corporate agriculture and the whole realm of neoliberal policies that are strangulating farmers lives and livelihood; In essence PKMT demands equitable distribution of land among women and men farmers, the most critical base for ending hunger, poverty and malnutrition in the country.

There is no doubt without Land there is NO Life!

Released by: Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek (PKMT) & Roots for Equity

Urdu Press Release

land less day PR 29,march 2018 urdu

ڈؤنلڈ ٹرمپ،بس اب اور نہیں! پاکستان کسان مزدور تحریک مرکزی رابطہ کار الطاف حسین

  !ڈونلڈ ٹرمپ، بس اب اور نہیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ ’’آپ نے ہمیں ڈبل کراس کیا۔ ہم نے آپ کو 33 ارب ڈالر دیے۔ آپ نے ہمارا کام نہیں کیا‘‘۔ جبکہ ہماری حکومت کہتی ہے کہ پاکستان کو 15 ارب ڈالر ملے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نقصان 110 ارب ڈالر کا ہوا ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے مجموعی طور پر امریکہ نے ہمیں نقصان ہی دیا ہے۔ لیکن ایک کسان ہونے کے ناتے میں آج زراعت پر پڑنے والے اثرات پر بات کروں گا، 2008 سے 2011 تک ہونے والے نقصانات کی بات کروں گا۔

آپ کے علم میں ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن کے اضلاع لوئر دیر، اپر دیر، شانگلہ، سوات اور ضلع بونیر میں آڑو، خوبانی، آلوبخارا، گندم، مکئی، چاول، پیاز، ٹماٹر بڑے پیمانے پر کاشت ہوتے ہیں جبکہ چھوٹے پیمانے پر دیگر کئی سبزیاں اور میوہ جات بھی کاشت کیے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی وجہ سے مالاکنڈ ڈویژن کے کئی اضلاع کے کو عوام کو اپنا گھر، تیار فصلیں اور باغات چھوڑ کر اندرون ملک نکل مکانی کرنی پڑی اور وہ آئی ڈی پیز بن گئے۔ میرا اپنا آلو بخارے کا باغ ہے جس سے اٹھارہ لاکھ روپے آمدنی ہوتی ہے۔ اس وقت ہماری ساری پیداوار ضائع ہوئی اور اربوں روپوں کا نقصان ہوا۔ اور اب ہمارے باغات پانی نہ ملنے کی وجہ سے سوکھ رہے ہیں۔ ہمارے علاقوں میں کرفیو لگا رہتا تھا جس کی وجہ سے ہم اپنی پیداوار فروخت نہیں کرسکتے تھے۔ آئی ڈی پیز بن کر ہمارے لوگوں نے پانچ سے چھ مہینے اسکولوں، حجروں میں رہ کر مصیبتیں اٹھائیں۔ نہ وقت پر کھانا، نہ وقت پر سونا، ہمارے لوگ ذہنی مریض بن گئے۔ جب واپس آئے تو کسی کا باپ لاپتہ، کسی کا بھائی اور بیٹا لاپتہ۔ گھر برباد، فصلیں برباد، باغات برباد، مویشی مرگئے۔ آئی ڈی پیز بن کر بے سروسامانی تو تھی ہی گھر پہنچ کر بھی بے سروسامانی کا عالم تھا۔ جناب ڈونلڈ ٹرمپ ہم نے یہ تمام مصیبتیں اٹھائیں اور آپ کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ ہم برباد ہوگئے۔ آپ نے ہمیں تباہ کیا۔ اللہ آپ کو برباد کرے۔

ہمارے کسان مال مویشی پالتے ہیں تاکہ دوھ حاصل کرسکیں یا انہیں پال کر فروخت کرسکیں۔ نقل مکانی کے وقت ہم نے سوچا کہ کچھ لوگ مویشیوں کو چارہ پانی دینے کے لیے وہیں چھوڑدیں لیکن یہ خوف بھی تھا کہ کہیں طالبان انہیں قتل نہ کردیں۔ مجبوراً تمام لوگ وہاں سے نکل گئے اور ہمارے مویشی پانی اور چارہ نہ ملنے کی وجہ سے مرگئے۔ میں یہاں صرف اپنے ایک دوست کی بات کروں گا جس نے دو گائے پال رکھی تھیں جس کے بچے بھی تھے لیکن جب وہ واپس آیا تو اس کے جانور مرچکے تھے۔ ایک گائے کی قیمت ایک لاکھ دس ہزار تھی، اور وہ جانور کیسے تڑپ تڑپ کر مرے ہوں گے، کیا یہ ظلم نہیں؟ کیا یہ انسانیت ہے؟

اس دوران تعلیمی ادارے بند رہے۔ بچے تعلیم سے محروم رہے۔ اسکول بارود سے اڑا دیے گئے جو سات سالوں میں دوبارہ تعمیر ہوئے اور اقوام متحدہ میں امریکہ کی مندوب خاتون کہتی ہیں کہ ’’امریکہ کے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا پیسہ آپ نے جنگجوؤں کو کھلایا‘‘۔ بس کریں اب اور جنگجوؤں کو نہ کھلائیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ آپ کہتے ہیں کہ ہم نے ہمیں ڈبل کراس کیا۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ نے ہمیں تباہ کیا۔ بس اب اور نہیں!