!عوامی مزاحمتی تحریکیں، امید آزادی کی روشن راہیں

یکم مئی 2024| پریس ریلیز

دنیا بھر میں یکم مئی، 1886 میں شکاگو کے مزدوروں کی جدوجہد کی یاد میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس موقع پر پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) اور روٹس فار ایکوٹی نے حطار انڈسٹریل اسٹیٹ ہری پور میں ”عوامی مزاحمتی تحریکیں: امید آزادی کی روشن راہیں“ کے عنوان سے منعقد کیا۔ جس میں بڑی تعداد میں مزدوروں اور کسانوں نے شرکت کی۔

مقررین نے عالمی معاشی بحران کے پس منظر میں بات کرتے ہوئے کہا کہ حالات سے ثابت ہے کہ سرمایہ داری اپنے عروج پر سامراجیت کی شکل میں واضح نظر آرہی ہے۔ بڑے پیمانے پر عوام خصوصاً مزدوروں پر جبر اس کی ایک شکل ہے۔ ایک طرف صیہونی اسرائیل نے فلسطینی عوام پر ظلم اور بربریت کی انتہا کردی ہے اور دوسری طرف عالمی طور پر خصوصاً پاکستان کے مزدوروں کا استحصال اپنے عروج پر ہے۔

پاکستان میں جاری معاشی بحران کا سبب سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام ہے۔شدید معاشی اور سماجی مسائل میں پسے ہوئے مزدور طبقہ کو عالمی مالیاتی اداروں خصوصاً آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس طبقے کے لیے صحت، تعلیم اور بہتر روزگار کا حصول پہلے ہی جان جوکھوں کا کام تھا مگر بڑھتی ہوئی مہنگائی جس میں کھانے پینے کی ضروری اشیاء چینی، آٹا، دودھ، مرغی، سبزی، گوشت، آلو، ٹماٹر، تیل سمیت دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہوشروبا اضافہ کے ساتھ ساتھ پیٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے پسے ہوئے طبقات خصوصاً مزدور اور کسان عورتوں کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ 2022-23 کے دورانیہ میں مہنگائی 12.2 سے بڑھ کر 28.2 ہو گئی ہے،اور غربت کے سطح 34.2 سے 39.4 ہو گئی ہے۔

حکومتی معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں سیکڑوں کارخانوں کی بندش کے نتیجہ میں ہزاروں مزدور بے روزگاری کا شکار ہیں، بھوک غربت میں اضافہ بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ اور جو مزدور کارخانوں میں کام کررہے ہیں ان سے زیادہ گھنٹے کام لیا جارہا ہے۔ نہ ہی انہیں اضافی اجرت دی جارہی اور نہ ہی انہیں کوئی سہولیات دی جارہی ہیں۔سرمایہ دارانہ کمپنیاں چاہے ملکی ہوں یا بین الاقوامی، مزدوروں کو کئی ہربوں سے غلاموں جیسے حالات میں رکھتی ہیں۔ مزدوروں کو ناپکی نوکری فراہم کی جاتی ہے اور ناہی مزدوری پر رکھنے کے بعد انہیں ملازمت کا کوئی ثبوت دیا جاتا ہے۔، مزدوروں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ ان کے کیا حقوق ہیں۔ یہ مزدور تنظیموں کی کوتاہی ہے کہ مزدور اپنے حقوق سے بے خبر ہیں۔

معاشی بحران کے ساتھ ساتھ موسمی بحران نے حالات کو مزید بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حالیہ بے موسمی بارش کے نتیجے میں خیبرپختونخواہ،پنجاب اور بلوچستان پر وسیع پیمانے پر تباہی سے گندم جیسی خوراک کی انتہائی اہم فصل بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ یاد رہے کہ 2022 کے بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے سندھ اور پنجاب میں کسانوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کے خاتمہ کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی اقدام تودرکنار حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے ملک دشمن اور عوام دشمن معاہدہ کے تحت مزید معاشی پستی کی جانب گامزن ہے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ملکی قرضوں میں مزید اضافہ کرتی جارہی ہے۔ حکومت کی ترجیح عوامی مسائل کے حل کے بجائے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کو نسل جیسے ادارے پرہے، جس میں مسلح افواج کی غیر  معمول موجودگی ہے۔ ایس آئی ایف سی نجکاری اور سرمایہ کاری پر بالخصوص خوراک اور زراعت کے شعبے میں خاص توجہ دے رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ خوراک کی بڑے پیمانے پر برآمدات ہوں گی جس کی وجہ سے ملک میں خوراک کی کمی ساتھ ساتھ مہنگی بھی ہو جائیگی۔

پاکستان کسان مزدور تحریک مطالبہ کرتی ہے کہ

۔ ترقی پزیر ممالک خصوصاً پاکستان کے غیر ملکی قرضہ جات میں سہولت کے بجائے ان قرضوں کی منسوخی۔
۔ غیر منصفانہ تجارتی معاہدوں کی معطلی اور ان پر ازسرنو بات چیت۔
۔ انسانی اور جمہوری حقوق کی پاسداری۔
۔ سرکاری نظام کے تحت محنت کش و کسان مزدوروں کے لیے سماجی تحفط بشمول صحت عامہ۔
۔ دفاعی بجٹ میں کٹوتی اور عوامی صحت اور سماجی خدمات کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم کی فراہمی۔
۔ نقدآور فصلوں کے بجائے گندم اور چاول کی فصلوں پر کسانوں کو سہولیات اور مراعات کی فراہمی تاکہ عوام کو غذائی بحران بچایا جاسکے۔
۔ زرعی زمین غیر ملکیوں کو دینے کے بجائے مقامی کسانوں میں مساویانہ اور منصفانہ بنیادوں پر تقسیم کی جائے۔
۔ مقامی صنعت کو فروغ دیا جائے اور ان پر بھاری ٹیکس کا خاتمہ کیا جائے۔نجکاری کا خاتمہ اور مزدوروں کو تمام مراعات سمیت پکی نوکری یقینی بنائی جائے۔
۔ کارخانوں میں عورتوں کو بھی باوقار روزگار سمیت تمام مراعات یقینی بنائی جائیں۔
۔ گیس، بجلی،خوراک اور دیگر ضررویات کی اشیاء کی قیمتوں میں عوام کی پہنچ کے مطابق فوری کمی کی جائے۔
جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک؛

صیہونی اسرائیلی اور سامراجی مصنوعات کا بائیکاٹ

               اس وقت  پوری دنیا   میں شدید انتشار اور بحران نظرآرہا ہے ۔سرمایہ داری عروج پر ہے اور سرمایہ داری جب عروج پر آتی ہے تو اس کو ہم سامراجیت کہتے ہیں۔ سامراجیت اس وقت پوری کوشش میں ہے  کہ دنیا کے تمام تر وسائل پر قبضہ کر لے  کیونکہ وسائل پر قبضے  سے ہی سرمایہ دار کے منافع میں اضافہ ممکن ہے ۔اسی وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ  نیولبرل ازم یعنی آزاد تجارت کے اصولوں کے تحت ملکوں کےاوپر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اپنے منڈیوں کو مکمل طور پر تجارت کے لیےکھول دیں۔ جو ممالک ان  احکامات کو تسلیم کر لیتے ہیں تو آزاد تجارت کے ذریعے ان کے وسائل ،ان کی منڈی اور ان کے مزدوروں پر قبضہ کر لیا جاتا ہے ۔ ایسے ممالک جوان احکامات کو   نہیں مانتے اور اپنے آپ کو اس سامراجی جبرو تسلط سے الگ رکھنا چاہتےہیں تو پھر ان کے اوپر جنگ مسلط کر دی جاتی ہے۔

 آج سے 75 سال پہلے برطانوی راج نے مشرقی وسطیٰ میں  فلسطینی زمین پر قبضہ کر کے  زبردستی ایک ریاست قائم  کی جس کا نام اسرائیل ہے۔یہاں پر بسنےوالے تقربیاً 7.5 لاکھ فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کیا گیا۔آج امریکہ کی پشت پناہی  کے ساتھ پور ی کوشش کی جار ہی ہے کہ صیہونی اسرائیل فلسطین کومکمل طور پر ختم کر کے  پورے علاقے پر قبضہ کرلے ۔ صیہونی اسرائیل کو بنانے کا مقصد ہی مشرقی وسطیٰ  پر قبضہ کرنا تھا  تاکہ اس علاقے کے تیل اور گیس  کے بے تحاشہ  قیمتی ذخائرپر بھی قبضہ کیا جا سکے ۔ اب  دنیامیں کم ہوتے  ہوئے قدرتی  ذخائر کی وجہ سے ان  کی  اہمیت و ضرورت اور بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

               فلسطین اور بالخصوص غزہ کی پٹی پر دہشت گرد، فاشسٹ، نوآبادیاتی صیہونی اسرائیل کی بمباری اور ظلم و ستم  کسی سے چھپا ہوا  نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کا وجود اور حالیہ سر زمین فلسطین پر جاری جارحیت، قبضہ ،پیش قدمی اور فلسطینیوں کی نسل کشی فقط مذہبی یا نسلی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے  ایک نیا تجارتی و اقتصادی راہداری منصوبہ  (IMEC) ہے ۔جس کے ذریعے غزہ اور مغربی کنارے کے تیل کے ذخائر پر قبضہ مقصود ہے۔ امیک  چین کی اقتصادی راہداری “BRI” کے طرز کی ایک مقابل راہداری ہے جسکی رہنمائی  امریکہ کر رہا ہے۔  اس منصوبے میں دو راہداریاں قائم کی جائیں گی، ایک مشرقی راہداری اور دوسری شمالی راہداری۔ مشرقی راہداری بھارت کو متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب اور اسرائیل سے جوڑے گی، جبکہ شمالی راہداری مشرق وسطی کے ممالک کو یورپی ممالک  سے جوڑے گی۔  ساتھ ہی ”ابراہم ایکارڈز“ کے ذریعے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سازش شامل ہے تاکہ مشرقی وسطی ٰ اور مسلمان  ممالک کے ساتھ صیہونی اسرائیل  کےبنا کسی رکاوٹ اور مشکل کے تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کر سکے اور امریکی سامراج کو اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں آسانی ہوسکے۔ حالیہ اسرائیلی بربریت کی ایک اور وجہ اس کے علاوہ غزہ اور مغربی کنارے میں دریافت ہونے والے تیل اور گیس کے ذخائر بھی ہیں جن پر اسرائیل اور امریکہ حاوی ہونا چاہتے ہیں۔

               یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ “اسرائیل “سو ئیزکینال  کی طرح کا ایک اور کنال بین گرئین  کینا ل قائم کر نا چاہ رہا ہے جس کے لیے غزہ پٹی ایک رکاوٹ ہے۔ یوں کہہ لیں کے اسرائیل اور امریکہ فلسطین کو کرہ ارض سے مٹانے کی پوری تیاری کررہا ہے۔

               غزہ سمیت عالمی امن کے لیے ضروری ہے کہ فاشسٹ سامراج کو لگام دیا جائے جو ہتھیاروں کی تجارت،  اورمزدوروں کے استحصال پر پرپلتا  پھولتا ہے۔ اس سامراج کا مقابلہ دنیا بھر کا محنت کش طبقہ  ہی کر سکتا ہے جس کا ایک طریقہ سامراجی کمپنیوں اور ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ ہے۔ صیہونی اسرائیل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بائیکاٹ اگر حکمت عملی کے ساتھ کیا جائے تو مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اسرائیل کی نسل کش حکومت کے ساتھ تمام ریاستی، سفارتی، کاروباری اور ادارہ کی سطح پر تمام تعلقات کو ختم کرنا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔

خصوصی  بائیکاٹ : انتہائی ضروری ہے کہ ان کمپنیو ں کو ہدف بناکر ان کی مصنوعات کے ساتھ ساتھ ان کا مکمل سماجی و معاشی بائیکاٹ کیا جائے جو اسرائیل کے جرائم میں واضح اور براہ راست کردار ادا کرتی ہیں اور جن کی حمایت کے حقیقی شواہد موجود ہیں۔مثلاًمیکڈونلڈز، اور برٹش پٹرولیم، کارفور، سیمنز وغیرہ۔

عمومی بائیکاٹ :وہ کمپنیاں جو کہ براہ راست اسرائیل کے مظالم میں شریک نہیں ہیں اور نہ ہی” بظاہر” اسرائیل کی حمایت کرتی نظرآتی ہیں لیکن وہ بین الاقوامی اور کثیرالقومی کمپنیاں ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج سے جڑی ہیں، ان کمپنیوں کا بائیکاٹ بھی ہمیں کسی نا کسی طور پر کرنا ہے اور کوشش کرنی ہے کہ ان کمپنیوں سے بطور صارف یا سرمایہ کار کسی قسم کا تعلق نہ رکھا جائے۔ ۔ مثلاً   شیل پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ،  برگرکنگ وغیرہ۔

درج ذیل مصنوعات اور کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں اور ان کے بجائے مقامی مصنوعات کو ترجیح دیں تاکہ مقامی صنعت کو فروغ ملےاور ملکی معیشت مضبوط ہو سکے ۔

خوراک ، زمین اور موسمی انصاف کے لیے پاکستان عوامی کارواں

پریس ریلیز | 18 اکتوبر 2023

پاکستان کسان مزدور تحریک   اور روٹس فار ایکوٹی نے 18 اکتوبر، 2023 کو شکار پور، سندھ میں خوراک، زمین اور موسمی انصاف کے لیے ”عالمی عوامی کارواں“ کے سلسلے میں پہلا ”پاکستان عوامی کارواں منعقد کیا۔ اس حوالے سے آنے والے ہفتوں میں پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی اس ”عوامی کارواں“ کا انعقاد کیا جائے گا۔ اسی طرح کے کارواں ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ، اور دیگر خطوں میں بھی اکتوبر-نومبر 2023 کے دورانیہ میں منعقد کیے جائیں گے۔ کارواں کا یہ سلسلہ 30 نومبر سے 12 دسمبر تک دبئی، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمی تبدیلی کانفرنس کے 28 ویں اجلاس تک جاری رہے گا۔

               بالعموم پاکستان اور بالخصوص ہماری دیہی آبادیوں کے لیے ایک ایسا بہترین پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے زمین، بھوک، وسائل پر قبضہ اور موسمی بحران جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ ان کے مطالبات کی طرف دنیا بھر کی عوام، ذرائع ابلاغ (میڈیا) اور پالیسی سازوں کی توجہ مبذول کرائی جا سکتی ہے۔ دیہی آبادیوں کی تحریکیں عالمی بھوک، نقل مکانی اور ماحولیاتی و موسمی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ وہ سامراجیت یعنی ’عالمی سلطنت‘ کے امیر ترین ممالک کے مالیاتی گٹھ جوڑ اور ان کی اجارہ دار کمپنیوں کا محاسبہ کررہی ہیں۔ ہمیں ان تحریکوں کو حقیقی معنوں میں مضبوط کرنے اور ان کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کی عوام بشمول انتہائی پس ماندہ دیہی آبادیوں کے لیے اور ان کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے نتیجہ خیز پالیسی سازی تشکیل دی جا سکے۔

               کارواں کے مقررین کا کہنا تھا کہ معاشرے کے انتہائی پسماندہ اور کمزور طبقات، چھوٹے اور بے زمین کسانوں بالخصوص عورتوں کو مہنگائی، زرعی پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ عوام خصوصاً دیہی آبادیوں کو درپیش مشکلات صرف اور صرف اجارہ دار سرمایہ داروں کی بیش بہا منافع کے حصول کی لالچ کی وجہ سے اٹھانی پڑ رہی ہیں۔ دیہی آبادیاں نہ صرف خوراک اور زراعت میں آزاد تجارتی پالیسیوں کے تباہ کن اثرات بلکہ سامراجی موسمی بحران کی بھی شکار ہیں۔ 2022 میں ہونے والی شدید بارشیں اور سیلاب موسمی بحران اور اس کی تباہ کاریوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

               سامراجیت کی وجہ سے درپیش مسائل سے مقابلے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں دیہی عوامی تحریکیں ابھررہی ہیں۔ ہم انتہائی تباہ کن موسمی بحران، بھوک اور بے زمینی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے انتہائی پرعزم اور کمر بستہ ہیں۔ دوسری جانب ان مسائل کے حل کے لیے ان مسائل کی بنیادی وجوہات کو دور کرنے کے بجائے اقوام متحدہ نے ایسا مکروہ منصوبہ ترتیب دیا ہے جس سے سامراجی ممالک کی بین الاقوامی کمپنیوں کے مفادات کو ہی تقویت مل رہی ہے اور وہ خوراک، بھوک اور موسمی بحران جیسے مسائل کا مزید استحصال کرتے ہوئے اپنے لیے مزید منافع اور خوراک کے عالمی نظام پر اپنے قبضے کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔

               ایک طرف حکومتیں اور ملکی و عالمی ادارے جاری موسمی بحران کے حوالے سے ہمیشہ کمزور اور پسماندہ کسانوں کی مدد کرنے کے دعوے کرتے ہیں مگر موسمی بحران کے حل کے لیے ان کے دعوے ہمیشہ مکمل طور پر جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو سامراجی ممالک کی رکازی ایندھن کی لت، جس کی وجہ سے پوری دنیا سمیت پاکستان کی دیہی آبادیوں کو بدترین موسمی بحران کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ابھی بھی اس عذاب میں مبتلا ہیں جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسرا قابل تجدید توانائی  جیسا حل بھی اجارہ دار کمپنیوں کی وجہ سے ہماری آبادیوں کے مزید استحصال اور دیہی آبادیوں میں زمین اور پانی کے تنازعات میں اضافے کا سبب بن رہی ہے اور آبادیوں کی بے زمینی، نقل مکانی اور ان کے طرز زندگی و زراعت میں خلل پیدا کر رہی ہے۔ سرمایہ داروں کے مفاد کے لیے عوامی اور قدرتی وسائل کا استحصال کرنے والی پالیسیوں کو تشکیل دیا جارہا ہے۔

               ہم سامراجی طاقتوں کو ان کے مفادات کے حصول کے خاطر ماحول، موسم، خوراک اور ترقی جیسے ایجنڈوں کو عوام کے حقوق اور مفادات کی قیمت پر اپنے کاروباری مفاد کے لیے استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ اگر ہم حقیقی پائیدار ترقی چاہتے ہیں، بھوک کے مکمل خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں، اور کرہ ارض کو موسمی بحران سے بچانے کے لیے حقیقی اقدامات اٹھانے پر پرعزم ہیں، تو ہمیں ان منافع کے منصوبوں کو بے نقاب اور ان کی سخت مخالفت کرنا ہوگی۔

                ہمیں سامراجی لوٹ مار کو درجہ ذیل طریقوں سے ختم کرنا ہے

،دنیائے عالم سے سامراج کے تسلط کا خاتمہ

،خوراک کے نظام پر بین الاقوامی کمپنیوں کی اجارہ داری کا خاتمہ

خوراک و زراعت میں رکازی ایندھن کے استعمال کا خاتمہ۔

                ہم اپنا مستقبل درجہ ذیل طریقوں سے بدل سکتے ہیں

،عوام کے حقوق اور امنگوں کے مطابق پالیسی سازی

،زمین اور قدرتی وسائل پر عوامی اختیار

عوامی خوراک و زراعت کے نظام کے حصول کے لیے انقلابی اقدامات۔

                ہمیں اپنی تحریکوں کو مزید مضبوط اور وسیع کرنے کے لیے انتھک محنت کرنا ہوگی، دنیا بھر کے دیہی اور تمام محنت کش طبقے کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے کے لیے بنیادی اور دیرپا پالیسی اصلاحات کے لیے عملی جدوجہد پر زور دینا ہوگا۔

                                                                                         جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک

Press Release GPC- Pakistan English

Press Release GPC- Pakistan Sindhi

دیہی عوام کا مطالبہ: خوراک زمین اور موسمی انصاف

پریس ریلیز | بھوک کا عالمی دن | 16 اکتوبر 2023 

 پاکستان کسان مزدور تحریک اور روٹس فار ایکوٹی نے ایشین پیزنٹ کولیشن، پیسٹی سائیڈ ایکشن نیٹ ورک کے تعاون سے 16 اکتوبر، 2023 کو “بھوک کا عالمی دن” کے طور پر منا رہے ہیں۔ جیسے عام طور پر “خوراک کا عالمی دن ” کہہ کر منایا جاتا ہے۔  اس موقع پر سندھ کے شہر گھوٹکی میں کسانوں کے اجتماع (جلسہ) کا اہتمام کیا گیا ہے۔

               یونیسف اور ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں تقریبا 333 ملین بچے (ہر چھ بچوں میں سے ایک) شدید غربت میں زندگی گزاررہے ہیں جبکہ جنوبی ایشیا میں 62 ملین بچے شدید غربت کا شکار ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے اندازے کےمطابق دنیا بھر میں 345 ملین افراد شدید بھوک کا شکار ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے مطابق 2022 میں دنیا میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد 691 ملین سے 783 ملین کے درمیان تھی۔ اقوام متحدہ کے حالیہ بیانیہ کے مطابق اس سال مزید 745 ملین افراد شدید بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بظاہر تو ہم اکیسویں صدی میں ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ اعلی  تکنیکی ترقی بھی ہو رہی ہے لیکن دنیا بڑھتی ہوئی بھوک کا سامنا کر رہی ہے، جن میں دیہی عورتیں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں ، جو کہ نہ صرف بھوک اور غذائی کمی کا شکار ہیں بلکہ مناسب روزگار اور اپنی ذاتی زمین بالخصوص زرعی زمین کی ملکیت سے بھی محروم ہیں۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ میں پاکستان 129 ممالک میں 99ویں نمبر پر ہے، جہاں بھوک کی سطح کو سنگین قرار دیا گیا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام اور خوراک کا عالمی ادارہ  کا خیال ہے کہ 80 لاکھ سے زیادہ افراد ”خوراک کی شدید کمی“ کا سامنا کررہے ہیں۔ مندرجہ بالا صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ خوراک و زراعت میں مسلسل آزاد تجارتی پالیسیوں کا فروغ کا نتیجہ ہے۔

               اعداد و شمار کے مطابق ملک کی مجموعی زرعی زمین کا 67 فیصد صرف پانچ فیصد جاگیردار خاندانوں کے قبضے میں ہے جوکہ بڑھتی ہوئی بھوک اور ملک کے شدید مقروض ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہمارے ملک پر حکمرانی کرنے والے اشرافیہ کی قلیل تعداد نے اسے قرضوں اور مفلوک الحالی کی کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ اس وقت پاکستان مجموعی طور پر 85 ارب امریکی ڈالر کا مقروض ہے، جس کے نتیجے میں شدید معاشی بحران نے عوام کو خودکشی اور اپنے پیاروں کی جان لینے جیسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔ حکومت مختلف ذرائع سے امداد کی بھیک مانگ رہی ہے۔ اب زرعی زمین غیر ملکی اداروں کو لیز پر دی جارہی ہے۔ حکومت نے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن  کونسل  جیسے ادارے بنائے ہیں جن میں مسلح افواج کی غیر معمولی موجودگی ہے۔ (ایس آئی ایف سی) نجکاری اور سرمایہ کاری پر خاص توجہ دے رہا ہے، خاص طور پر خوراک اور زراعت کے شعبے میں اور اس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ خوراک کی بڑے پیمانے پر برآمدات ہوں گی۔ اس کے علاوہ، کارپوریٹ فارمنگ کے لیے بھی زمین لیز پر دی جارہی ہے، جس میں سرمایہ کاروں کو کسانوں، خاص طور پر چھوٹے اور بے زمین کسانوں پر ترجیح دی جارہی ہے جس کے نتیجے میں دیہی آبادیوں کیو مزید سنگین نتائج اور حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

               آئی ایم ایف کی شرائط کے نتیجے میں، ایندھن کی قیمتوں میں ہوشربہ اضافہ ہوا ہے جس سے چھوٹے کسانوں کے لیے خوراک کی پیداوار جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ کسان آبادی کا بڑھتا ہوا قرض ملک میں بے زمینی کو بڑھا رہا ہے۔

ا ن مسائل کا حل  ملک کو فروخت  کرنے میں نہیں   بلکہ خوراک اور زراعت اور قومی صنعت میں خود انحصاری پیدا کرنے میں مضمر ہے۔ کارپوریشنز اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری صرف ملک کو اس کے وسائل سے محروم کرے گی ، جبکہ ہماری زمین اور مزدوری سے بھرپور منافع حاصل کرے گی۔ اس موقع پر یہ اہم ہے کہ ہم خوراک  کی خودمختاری کے بنیاد پر  زراعت کی پالیسی کو اپنائیں، جس میں چھوٹے اور بے زمین کسانوں، خاص طور پر خواتین کو پالیسی کی   تشکیل  اور نفاذ میں مرکزی جگہ دی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زمین کی منصفانہ اور مسانایہ تقسیم کو ترجیح دے کر ملک کو قرضوں اور تنگدستی  سے نکلا جا سکتا ہے، اور ایک قومی صنعت کے قیام میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

!آئیے ہم خوراک کی خودمختاری کے لئے، موسمی  انصاف کے لئے، قومی خودمختاری کے لئے لڑیں

جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک

Press Release Hunger Day 2023 English

Press Release Hunger Day 2023 Sindhi

کسان مزدور عورتوں کا مطالبہ: زمین ، خوراک اور فیصلہ سازی کا اختیار

پریس ریلیز | دیہی عورتوں کا عالمی دن | 15 اکتوبر 2023

پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی ) اور روٹس فور ایکوٹی دیہی عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر عالمی سامراجی پالیسیوں کی جانب اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان پر سوال اٹھاتی ہے۔ ایک طرف تو یوں لگتا ہے کہ نام نہاد ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دنیا بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے خاص طور پر زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے ریاستی سطح پر پالیسی سازی کی جارہی ہے اور بڑھ چڑھ کر حکمت عملیاں ترتیب دی جارہیں ہیں۔ دوسری جانب زراعت کے شعبے سے جڑی آبادیوں میں بھوک اور غذائی کمی بڑھتی جارہی ہےبالخصوص عورتیں اور بچے اس خوراک کی کمی کے شدید متاثرین میں سے ہیں۔ دنیا میں بڑھتی ہوئی بھوک اور غذائی کمی ماضی کے سبز انقلاب کی حقیقت اور جدید مشینری اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہونے والی صنعتی زراعت کی اصلیت اور اس کے پیچھے چھپے سامراجیت کے زمین و خوراک پر قبضے کی اہداف اور جھوٹ کو عیاں کرتی ہے۔

                    یونیسف اور ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں تقریبا 333 ملین بچے (ہر چھ بچوں میں سے ایک) شدید غربت میں زندگی گزاررہے ہیں جبکہ جنوبی ایشیا میں 62 ملین بچے شدید غربت کا شکار ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے اندازے کےمطابق دنیا بھر میں 345 ملین افراد شدید بھوک کا شکار ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے مطابق 2022 میں دنیا میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد 691 ملین سے 783 ملین کے درمیان تھی۔ اقوام متحدہ کے حالیہ بیانیہ کے مطابق اس سال مزید 745 ملین افراد شدید بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بظاہر تو ہم اکیسویں صدی میں ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ اعلی  تکنیکی ترقی بھی ہو رہی ہے لیکن دنیا بڑھتی ہوئی بھوک کا سامنا کر رہی ہے، جن میں دیہی عورتیں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں ، جو کہ نہ صرف بھوک اور غذائی کمی کا شکار ہیں بلکہ مناسب روزگار اور اپنی ذاتی زمین بالخصوص زرعی زمین کی ملکیت سے بھی محروم ہیں۔

                    خاص طور پر پاکستان میں کسان مزدور عورتیں زرعی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں مگر تقریباً سب ہی بے زمین ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ زمین و زراعت میں کسی بھی قسم کی فیصلہ سازی کا اختیار نہیں رکھتیں۔ بیج کی بوائی سے لے کر فصل کی کٹائی تک ، مال مویشیوں کا چارہ پانی کا خیال رکھنے سے لیکر دودھ و دھنے اور ان کی دیکھ بھال کرنے تک، عورتوں کی اولین ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ تمام فصلیں ، خاص طور پر گندم کی کٹائی جو کہ کمرتوڑ محنت طلب کرتی ہے، اور کپاس کی چنائی جو کہ ہاتھ پیروں کے زخمی ہو جانے کا سبب بنتی ہے اور سبزیاں جن میں زہریلی ادویات کے استعمال کی وجہ سے کئی طرح کی جلدی اور دیگر بیماریاں ہو جاتی ہیں، عورت ہی کے بل بوتے سرانجام پاتی ہیں۔ ان سب کے باجود بھی یہی طبقہ سب سے زیادہ پس ماندہ اور ہر طرح کے ظلم کا شکار ہے۔

                    سامراج نیولبرل ازم پالیسیوں کو ہماری معاشی بدحالی کے حل کے طور پر پیش کرتا ہے، لیکن درحقیقت یہی معاشی غارت گری کی اصل بنیاد ہے۔نوآبادیات سے لے کر آج تک ، زمین کے حقیقی کاشتکاروں کو زبردستی ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیااور ان جاگیرداروں کو مسلط کر کے سامراج کے تسلط اور اس کی حاکمیت کو قائم اور برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جس کا مقصد خوراک کے نظام پر قبضہ جما کر بین الاقوامی کمپنیوں کے منافع کے حصول کو یقینی بنایا ہے۔

منافع خور اور منافع کے ہوس میں کسی بھی حدتک جانے والا یہ سامراجی پیداواری نظام جو کہ رکازی ایندھن (فوسل فیول) کے زور پر کھڑا ہواہے، موسمی بحران کا ذمہ دار ہے۔ لیکن سامراجی طاقیتں غیرپائیدار پیداوار اور کھپت کو منافع کی لالچ میں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جس کا خمیازہ کسان مزدور بالخصوص کسان مزدور عورتون کو اپنی زمین گھر، کھیت، فصلوں اور مال مایشیوں کے نقصانات کی شکل میں بھگتنا پڑرہا ہے۔ نہ صرف موسمی بحران اور اس کے نتیجے میں ہونے والی  تباہی ، بلکہ قرضوں کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے جس کا کوئی تعلق ہم مزدور اور کسان عوام سے نہیں ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جانب سے سونپی پالیسیاں (خاص طور پر   ملکی اشرافیہ کے، لیے گئے قرضہ جات کی فراہمی کے عوض اور اس قرضہ کوواپس کرنے کی حکمت عملی کے طور پر ، اخراجات کی کمی کے نام پر دی جانی والی سبسڈیاں اور ملکی آمدنی بڑھانے کے نام پر محصولات میں بے تحاشہ اضافہ) عوام کو بھوک و افلاس، غربت میں دھکیلنے اورزرعی پیداوار کے نظام کو مزید مفلوج کر رہی ہیں۔

                    پاکستان کسان مزدور تحریک حکومت سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اناج کی برآمد کے لیے ملکی زمین کو لیز پر دینے کے بجائے سرمایہ دار سامراجی ممالک کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے ہر بے جابات تسلیم کرنے کے بجائے قرضوں کو منسوخی کے ساتھ ساتھ ہر اس پالیسی کو ماننے سے انکار کردیں جو اس ملک کی عوام خاص طورپر دیہی آبادیوں، کسان مزدور عورتوں کے مفاد کے خلاف ہو۔ پی کے ایم ٹی یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ کسانوں ، خاص  طور پر زرعی مزدور عورتوں میں زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم ، محفوظ اور غذائیت سے بھر پور خوراک کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ مختصر یہ کہ ہم ایک ایسی پالیسی کا مطالبہ کرتے ہیں جو خوراک کی خود مختاری ، موسمی انصاف، معاشی اور سماجی انصاف اور عوامی احتساب کی حامل ہو۔

دیہی کسان مزدور عورت مطالبہ کرتی ہے: خوراک کی خودمختاری کا، زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کا، موسمی انصاف کا؛

دیہی کسان مزدور عورت رد کرتی ہے: پدرشاہی نظام کا ، جاگیرداری نظام کا، سرمایہ داری نظام کا، سامراجیت کا۔ عالمیگریت اور نیولبرل ازم کی بنیاد پر بنائے جانے والی ہر پالیسی کا، ان پالیسیوں کو بنانے اور زبردستی لاگو کرنے والے ہر ملکی ، غیرملکی ، قومی، کثیرالقومی اور بین الاقوامی ادارے کا اور ساتھ ہی ساتھ بغاوت اور نجات کا اعلان کرتی ہے۔

جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک

Press Release Rural Women Day 2023 English

گولیاں تم پر چلانے والے اب تک زندہ ہیں ۔۔۔ سکرنڈ  کے شہیدوں کو  سلام

پریس ریلیز

پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) سکرنڈ، ضلع شہید بینظیر آباد میں رونما ہونے والے اندوہناک واقعہ کی پر زور مذمت کرتی ہے جس میں بے گناہ، نہتے ہاریوں کو دن دھاڑے ریاستی جبر و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی عوام کے محافظوں  نے قانون اپنے ہاتھ لیتے ہوئے گاؤں باسیوں کو سزا کی بھینٹ چڑھا دیا۔ غریب اور مفلوک الحال شہریوں پر اس بھیانک دلیری کا مظاہرہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ 8 جنوری، 1953کو طالبعلموں پر ہونے والی فائرنگ (27 افراد جاں بحق)، 1968 کی طلبہ، مزدور اور کسان تحریک کو کچلنے کی کوشش(240 افراد جاں بحق)، 1969-1971 کی مزدور تحریک میں مزدوروں پر تشدد، 1972 میں مزدوروں اور  1978 میں ورکرز کالونی میں مزدوروں کے قتل عام کے ساتھ ساتھ انجمن مزارعین پنجاب اور دیگر مزدور و کسان تحریکوں کو کچلنے اور درجنوں واقعات ہتھیار بند، مسلح افراد کی بربریت اور جارحیت امن کے منہ پر طمانچہ ہے۔جبکہ دوسری جانب خوراک کے مصنوعی بحران کو وجہ بناتے ہوئے کارپوریٹ ایگریکلچر کے نام پر حالیہ مہینوں میں پاکستان آرمی کو45000  ایکڑ زمین کی منتقلی کی گئی اور سامراجی موسمی بحران کو وجہ بناتے ہوئے زراعت میں جدت کے نام ، امریکہ بہادر کی ایما ء پر Green Initiative اور Climate Resilient Seed & Technology  کو زبردستی لاگو کر کے کسانوں کا معاشی قتل عام کیا جارہا ہے ۔پاکستان کسان مزدور تحریک  عوام بالخصوص کسان مزدور کو یہ باو ر کرادینا چاہتی ہے کہ اگر ان سامراجی ہتھکنڈوں کے خلاف مزاحمت نہیں کی گئی  تو  آنے والے دنوں  میں ان ناانصافیوں میں مزید اضافہ ہو تا رہے گا۔

پاکستان کے محنت کش کسان اور مزدوروں کی حالت موجودہ سیاسی اور معاشی منظرنامے میں کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، بے زمینی اور جاگیردارانہ و نیو لبرل پالیسیوں نے عوام کا جینا مشکل کر رکھا ہے۔ ان حالات میں جہاں ریاست کو معاشی استحکام کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھاتے ہوئے زمینوں کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کرنی چاہیے وہاں ہاریوں کو زمین سے بے دخل ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور عوام کی جانب سے سر تسلیم خم نہ کرنے پر انہیں تشدد  کا نشانہ بنایا جارہا  ہے۔ یہ واقعہ ریاست کے لیے باعث شرم ہے۔ ساتھ ہی ساتھ محنت کش عوام کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

پاکستان کسان مزدور تحریک حکومت وقت، عدلیہ اور قانون نافظ کرنے والے اداروں سے ملزمان کو سخت سے سخت سزا دیکر انہیں عبرت کا نشانہ بنانے کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ پھر کسی بھی طاقتور کو اپنی طاقت کا غیر قانونی استعمال کرنے سے خوف آئےاور اس ملک کے شہری سکون کا سانس لے سکیں۔ پی کے ایم ٹی مطالبہ کرتی ہے کہ قوانین کو عوام بالخصوص مزدور و کسان دوست اور ان کی حفاظت اور خوشحالی کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائے جائیں اور ان تمام قوانین اور اختیارات کا فی الفور خاتمہ کیا جائے جو اپنے ہی ملک میں اپنے ہی شہریوں کو یرغمال بنانے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔  ہم اس ریاست سے ماں کا جیسا سلوک روا رکھنے کی امید اور مطالبہ کرتے ہیں۔ پاکستان کسان مزدور تحریک پر زور مطالبہ کرتی ہے کہ ریاست آئین کی پاسداری کرتے ہوئے ہر شہری کے لیے روزگار، خوراک، چھت، صحت ، تعلیم اور تحفظ کی فراہمی  کو یقینی بنائے۔

جاری کردہ : پاکستان کسان مزدور تحریک

PKMT Press Release Sarkand Incident

PKMT Criticizes Government Policies amid Rising Poverty and Economic Hardships

By Adeel Alvi | Regional Times of Sindh | September 6, 2023

Shikarpur: The Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek (PKMT) staged a protest demonstration in Shikarpur on Tuesday, decrying the prevalent inflation and dire economic conditions in the country. Speaking at the event, PKMT leaders Hakim Gul and others vehemently criticized the policies of the current government. They highlighted the worsening poverty and unemployment crisis gripping the nation.

The PKMT leader expressed deep concern over the influence exerted by international financial institutions like the IMF, asserting that their policies have resulted in severe hardships, particularly for rural and working-class communities. Soaring prices of essential commodities, including electricity, petroleum gas and food items, have placed immense burdens on the common people, particularly those from rural and working-class backgrounds. Factory closures have led to widespread joblessness, further exacerbating economic difficulties, rising poverty, and inflation.

Amid this backdrop, the speakers underscored the intensification of the feudal system and exploitation of rural and working-class women, contributing to economic hardships, bonded labor, food scarcity, and poverty. Persistent power outages and energy shortages have become unbearable for the populace.

Furthermore, the speakers criticized the misuse of national resources, including free electricity, gas, and unauthorized expenditures, which have placed undue financial burdens on the hard-working citizens of Pakistan.

The PKMT leaders emphasized that the combination of poverty, unemployment, and inflation has significantly disrupted the lives of ordinary citizens. The soaring price of essential goods, especially electricity, gas and petroleum, have disproportionately affected the working class population. They asserted that the current government’s economic and social policies have exacerbated societal issues and crime.

To address this crisis, the speakers called for immediate and decisive action. The urged the state to implement fair and equitable distribution of land and resources among rural and working-class populations. They also called for urgent tax reforms to ensure that wealthy landowners and multinational corporations pay their fair share of taxes.

The PKMT demanded that the government prioritize the interests of the working class and rural citizens and take concrete steps to alleviate their economic hardships.

https://regionaltimes.com/singlepaper

پریس ریلیز | سامراجی معاشی استحصال؛ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، عدم تحفظ

پریس ریلیز  4 ستمبر 2023
پاکستان کسان مزدور تحریک ملک کی حالیہ معاشی بدحالی پر سراپا احتجاج ہے۔ پاکستان کسان مزدور تحریک کے
چھوٹے اور بے زمین کسان ممبران آج 4 ستمبر، 2023 کو یومِ احتجاج مناتے ہوئے پورے ملک میں اپنی احتجاجی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں شکارپور، خیرپور، گھوٹکی، ہری پور، دیر، مانسہرہ، ساہیوال اور راجن پور میں احتجاجی مظاہرے اور پشاور، ملتان اور کراچی میں پریس کانفرنس کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر اضلاع میں احتجاج ریکارڈ کروایا جا رہا ہے۔
ہم اس ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان و مزدور عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی نظام کی پالیسیوں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ڈبلیو ٹی او، کوڈیکس ایلیمنٹریس، ایس پی ایس کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے آج ہمارے محنت کش خاص کر چھوٹے اور بے زمین کسان اور صنعتی مزدور شدید بھوک، غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ آج کسان کھیتی باڑی کو چھوڑنے پر مجبور ہوچکا ہے، کارخانے بند ہو رہے ہیں اور مزدوروں کی بہت بڑی تعداد بے روزگاری سے دوچار ہوچکی ہے۔ ان حالات میں پدر شاہی نظام کے اثر تلے کسان و مزدور عورت پر معاشی بدحالی، بھوک، غذائی کمی اور غربت کے ساتھ ساتھ سماجی بربریت و استحصال دوہرا ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے نتیجے میں حالیہ سامراجی اور سرمایہ دارانہ غلبہ ملک میں بجلی، تیل، گیس اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں اور محنت کش طبقہ کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں۔ بھوک، افلاس، غربت اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے جبکہ دوسری جانب اس ملک کی اشرافیہ ریاستی مراعات کے نام پر مفت بجلی، تیل، گیس اور اربوں روپے کے ناجائز اخراجات کا بوجھ قومی خزانے پر ڈال رہی ہے، جس کا خمیازہ محنت کش عوام اپنا پیٹ کاٹ کر بھوک اور ننگ کی صورت میں ادا کر رہا ہے۔ ہم حکومت کی موجودہ معاشی بدحالی کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے بلوں کے نرخوں کو صراحاً مسترد کرتے ہیں اور ان بلوں کی ادائیگی کے لیے بھونڈے، غیر تسلی بخش اور کھوکھلی تجاویز کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ عوامی ضروریات پر ٹیکس عائد کرنے کے بجائے ہم حکومت سے 50 ایکڑ سے زائد زمین کی ملکیت والے زمینداروں اور جاگیرداروں پر زرعی ٹیکس کے ساتھ ساتھ رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

Continue reading

بچاؤ دیہی انمول اثاثے؛ مہم برائے مال مویشی و دودھ

پریس ریلیز  22 جون 2023
پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) نے 8 مارچ،  2023 کو ساہیوال میں ”بچاؤ دیہی انمول اثاثے: دودھ اور مال مویشی شعبہ کے کارپوریٹ قبضے کے خلاف مہم“ کا آغاز کیا تھا۔ پی کے ایم ٹی کے مطابق دودھ اور مال مویشی کے شعبے میں کمپنیوں کے غلبہ کو ممکن بنانے کے لیے خالص خوراک کے قوانین کے نفاذ کو ہتھیار کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ مختلف صوبوں بالخصوص پنجاب کی پیور فوڈ اتھارٹیز بظاہر اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ خالص قدرتی کھلا دودھ آلودہ ہے، لہذا کسان سمیت دودھ کی تمام تجارتی پیداوار اور فروخت کرنے والے اداروں کو پنجاب فوڈ ریگولیشنز 2018 کم از کم پیسچرائزیشن گائیڈ لائنز اور اسٹینڈرڈز پر عمل کرنا ہوگا اور پیور فوڈ اتھارٹی میں اپنا اندراج کرانا ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دودھ پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے اور ہم دودھ کی پیداوار میں تقریباً خود مختار ہیں۔ اگرچہ کسانوں کی اکثریت کے پاس زمین نہیں ہے، لیکن ان کے پاس مویشی ہیں اور مویشیوں کی پیداوار و فروخت کے ساتھ ساتھ دودھ اور دودھ سے تیار کردہ دیگر مصنوعات پر بھی کافی حد تک اختیار ہے۔ دیہی علاقوں میں 80 فیصد دودھ چھوٹے پیمانے پر پیدا ہوتا ہے اور 97 فیصد دودھ تازہ کھلے اور بقیہ صرف تین فیصد ڈبہ بند شکل میں منڈی میں بکتا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے کہ جس کے پیچھے عالمی تجارتی ادارہ (ڈبلیو ٹی او) کی ایماء پر خالص خوراک کے قوانین کو کسانوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔
دودھ اور مال مویشی کے شعبے کے تناظر میں امریکہ، جرمنی، فرانس، آسٹریلیا اور دیگر سرمایہ دار صنعتی ممالک کی طاقتور حکومتیں اپنی زرعی پالیسیوں مثلاً یورپی یونین (ای یو) کی (سی اے پی) اور یو ایس فارم بل پالیسی کے ذریعے اپنے کسانوں کو اربوں ڈالر اور یورو کی امداد فراہم کرتی ہیں۔ 2023-2027 کی سی اے پی پالیسی میں، یورپی یونین نے اپنے کسانوں کے لیے 307 بلین یورو کی مدد فراہم کی ہے۔ اسی طرح فارم بل 2018-2023 کے ذریعہ امریکہ اپنے کسانوں کو 428 ارب ڈالر کی مدد فراہم کررہا ہے۔ دودھ کے شعبہ کے لیے خصوصی سبسڈی فراہم کی جاتی ہے تاکہ دودھ کی اضافی پیداوار) کے لیے اسٹوریج اور اضافی ڈیری مصنوعات کو سرکاری سطح پر خریدنے کے لیے مراعات دی جاتی ہے۔ چونکہ کھپت پیداوار سے کم ہے لہذا کمپنیاں دودھ کو خشک دودھ یا اسکیمڈ دودھ میں تبدیل کرتی ہیں اور پھر ان مصنوعات کے لیے منڈی ڈھونڈتی ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ، یورپی یونین اور آسٹریلیا کی کمپنیاں گائے اور بھینس کی بوائن جینیات (زیادہ پیداوار والے مویشیوں کی افزائش) میں بھی مہارت رکھتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے زندہ مویشیوں کے لیے بھی منڈیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دودھ کی صنعتی طرز پیداوار ماحول کے لیے تباہ کن ہے اور گلوبل وارمنگ کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ اس لیے پی کے ایم ٹی ہمارے دیہی اثاثوں پر سامراجی کارپوریٹ قبضے کی شدید مخالفت کرتی ہے۔
انہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کہنے پر ڈبلیو ٹی او اور دیگر سرمایہ کاری کے معاہدے کیے جاتے ہیں تاکہ پاکستان جیسے ممالک کی دودھ اور مال مویشی منڈیوں پر قبضہ کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر ورلڈ بینک کے ماتحت ادارے انٹرنیشنل فنانشل کارپوریشن نے نیدر لینڈ کی دودھ کی سب سے بڑی کمپنی فریز لینڈ کیمپینا کو 145 ملین ڈالر فراہم کیے تاکہ پاکستان کی سب سے بڑی دودھ کی کمپنی اینگرو فوڈز کا 51 فیصد حصص حاصل کرکے پاکستانی ڈیری انڈسٹری پر اجارہ داری قائم کی جاسکے۔
نیسلے اور اس جیسی دیگر بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہماری منڈیوں پر قابض ہونے کے لیے دودھ کی پیداوار اور منڈیوں پر چھوٹے کسانوں کا اختیار ختم کرنا ہوگا۔ ڈبلیو ٹی او کے معاہدے مثلاً اے او اے، ٹرپس، ایس پی ایس اور ٹی بی ٹی کا مقصد پاکستان جیسے ممالک کی منڈیوں پر زبردستی قبضہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
دودھ اور مال مویشی شعبہ پر کارپوریٹ کنٹرول کے خلاف پی کے ایم ٹی کی سہماہی مہم کی اختتامی تقریب آج 22 جون کو منعقد ہوئی، جس دن ایک بہادر کسان عورت مائی بختاور کو اپنی برادری کی اناج کے قبضے کے خلاف مزاہمت کرتے ہوئے جاگیرداروں نے قتل کردیا تھا۔ مہم کی اختتامی تقریب میں ہم اپنے دودھ اور مال مویشی شعبہ پر کمپنیوں کے قبضے کے خلاف لڑنے اور زرعی زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کے لیے عزم کا اعیادہ کرتے ہیں۔ پمفلٹ تقسیم کے ذریعے ہم چاروں صوبوں کے 57 اضلاع اور اسلام آباد میں پانچ لاکھ سے زائد پاکستانی شہریوں کو خالص خوراک کے قوانین کے مذموم مقاصد سے آگاہ کیا گیا۔ متعدد ٹی وی ٹاک شوز میں حصہ لیا، ریڈیو پروگرام کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا گیا۔
ہمارا مقصد ملک کے کونے کونے تک پہنچ کر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ڈبہ بند دودھ اور دودھ سے بنے دیگر مصنوعات کا بائیکاٹ کا مطالبہ کرنا ہے، ہماری دیہی آبادیوں کی اکثریت اس شعبہ سے اپنا روزگار حاصل کرتی ہے۔ معاشی طور پر پاکستان پہلے ہی 126.3 بلین امریکی ڈالر (تقریباً 337 کھرب روپے) کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور اس قرض کے بوجھ تلے عوام فاقوں پر مجبور ہے، ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی پیداواری صنعت کو پائیدار اور مضبوط بنیاد پر کھڑا کریں خصوصاً اپنے قیمتی ماحولیات سے ہم آہنگ زرعی، مال مویشی اور دودھ کی پیداواری نظام کا ناصرف تحفظ کریں بلکہ اس کو بڑھائیں۔ تاکہ وقت کی ضرورت کے تحت سامراجی تسلط
اور ماحولیاتی تباہی سے اپنا بچاؤ کیا جاسکے۔
!۔ ڈبہ بند دودھ کا بائیکاٹ
!۔ دودھ اور مال مویشی شعبے پر کمپنیوں کا قبضہ نامنظور
!۔ کسان عورتوں کے حقوق کے لیے کھڑے ہوں
!۔ چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے حقوق کے لیے کھڑے ہوں
۔ دودھ کی خود مختاری کے لیے کھڑے ہوں!۔زمین کے منصفانہ اور مساویانہ بٹوارے کے لیے کھڑے ہوں
!۔ موسمی انصاف کے لیے کھڑے ہوں
!۔ خوراک کی خودمختاری کے لیے کھڑے ہوں
جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک