خوراک ، زمین اور موسمی انصاف کے لیے پاکستان عوامی کارواں

پریس ریلیز | 18 اکتوبر 2023

پاکستان کسان مزدور تحریک   اور روٹس فار ایکوٹی نے 18 اکتوبر، 2023 کو شکار پور، سندھ میں خوراک، زمین اور موسمی انصاف کے لیے ”عالمی عوامی کارواں“ کے سلسلے میں پہلا ”پاکستان عوامی کارواں منعقد کیا۔ اس حوالے سے آنے والے ہفتوں میں پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی اس ”عوامی کارواں“ کا انعقاد کیا جائے گا۔ اسی طرح کے کارواں ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ، اور دیگر خطوں میں بھی اکتوبر-نومبر 2023 کے دورانیہ میں منعقد کیے جائیں گے۔ کارواں کا یہ سلسلہ 30 نومبر سے 12 دسمبر تک دبئی، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمی تبدیلی کانفرنس کے 28 ویں اجلاس تک جاری رہے گا۔

               بالعموم پاکستان اور بالخصوص ہماری دیہی آبادیوں کے لیے ایک ایسا بہترین پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے زمین، بھوک، وسائل پر قبضہ اور موسمی بحران جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ ان کے مطالبات کی طرف دنیا بھر کی عوام، ذرائع ابلاغ (میڈیا) اور پالیسی سازوں کی توجہ مبذول کرائی جا سکتی ہے۔ دیہی آبادیوں کی تحریکیں عالمی بھوک، نقل مکانی اور ماحولیاتی و موسمی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ وہ سامراجیت یعنی ’عالمی سلطنت‘ کے امیر ترین ممالک کے مالیاتی گٹھ جوڑ اور ان کی اجارہ دار کمپنیوں کا محاسبہ کررہی ہیں۔ ہمیں ان تحریکوں کو حقیقی معنوں میں مضبوط کرنے اور ان کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کی عوام بشمول انتہائی پس ماندہ دیہی آبادیوں کے لیے اور ان کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے نتیجہ خیز پالیسی سازی تشکیل دی جا سکے۔

               کارواں کے مقررین کا کہنا تھا کہ معاشرے کے انتہائی پسماندہ اور کمزور طبقات، چھوٹے اور بے زمین کسانوں بالخصوص عورتوں کو مہنگائی، زرعی پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ عوام خصوصاً دیہی آبادیوں کو درپیش مشکلات صرف اور صرف اجارہ دار سرمایہ داروں کی بیش بہا منافع کے حصول کی لالچ کی وجہ سے اٹھانی پڑ رہی ہیں۔ دیہی آبادیاں نہ صرف خوراک اور زراعت میں آزاد تجارتی پالیسیوں کے تباہ کن اثرات بلکہ سامراجی موسمی بحران کی بھی شکار ہیں۔ 2022 میں ہونے والی شدید بارشیں اور سیلاب موسمی بحران اور اس کی تباہ کاریوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

               سامراجیت کی وجہ سے درپیش مسائل سے مقابلے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں دیہی عوامی تحریکیں ابھررہی ہیں۔ ہم انتہائی تباہ کن موسمی بحران، بھوک اور بے زمینی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے انتہائی پرعزم اور کمر بستہ ہیں۔ دوسری جانب ان مسائل کے حل کے لیے ان مسائل کی بنیادی وجوہات کو دور کرنے کے بجائے اقوام متحدہ نے ایسا مکروہ منصوبہ ترتیب دیا ہے جس سے سامراجی ممالک کی بین الاقوامی کمپنیوں کے مفادات کو ہی تقویت مل رہی ہے اور وہ خوراک، بھوک اور موسمی بحران جیسے مسائل کا مزید استحصال کرتے ہوئے اپنے لیے مزید منافع اور خوراک کے عالمی نظام پر اپنے قبضے کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔

               ایک طرف حکومتیں اور ملکی و عالمی ادارے جاری موسمی بحران کے حوالے سے ہمیشہ کمزور اور پسماندہ کسانوں کی مدد کرنے کے دعوے کرتے ہیں مگر موسمی بحران کے حل کے لیے ان کے دعوے ہمیشہ مکمل طور پر جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو سامراجی ممالک کی رکازی ایندھن کی لت، جس کی وجہ سے پوری دنیا سمیت پاکستان کی دیہی آبادیوں کو بدترین موسمی بحران کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ابھی بھی اس عذاب میں مبتلا ہیں جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسرا قابل تجدید توانائی  جیسا حل بھی اجارہ دار کمپنیوں کی وجہ سے ہماری آبادیوں کے مزید استحصال اور دیہی آبادیوں میں زمین اور پانی کے تنازعات میں اضافے کا سبب بن رہی ہے اور آبادیوں کی بے زمینی، نقل مکانی اور ان کے طرز زندگی و زراعت میں خلل پیدا کر رہی ہے۔ سرمایہ داروں کے مفاد کے لیے عوامی اور قدرتی وسائل کا استحصال کرنے والی پالیسیوں کو تشکیل دیا جارہا ہے۔

               ہم سامراجی طاقتوں کو ان کے مفادات کے حصول کے خاطر ماحول، موسم، خوراک اور ترقی جیسے ایجنڈوں کو عوام کے حقوق اور مفادات کی قیمت پر اپنے کاروباری مفاد کے لیے استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ اگر ہم حقیقی پائیدار ترقی چاہتے ہیں، بھوک کے مکمل خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں، اور کرہ ارض کو موسمی بحران سے بچانے کے لیے حقیقی اقدامات اٹھانے پر پرعزم ہیں، تو ہمیں ان منافع کے منصوبوں کو بے نقاب اور ان کی سخت مخالفت کرنا ہوگی۔

                ہمیں سامراجی لوٹ مار کو درجہ ذیل طریقوں سے ختم کرنا ہے

،دنیائے عالم سے سامراج کے تسلط کا خاتمہ

،خوراک کے نظام پر بین الاقوامی کمپنیوں کی اجارہ داری کا خاتمہ

خوراک و زراعت میں رکازی ایندھن کے استعمال کا خاتمہ۔

                ہم اپنا مستقبل درجہ ذیل طریقوں سے بدل سکتے ہیں

،عوام کے حقوق اور امنگوں کے مطابق پالیسی سازی

،زمین اور قدرتی وسائل پر عوامی اختیار

عوامی خوراک و زراعت کے نظام کے حصول کے لیے انقلابی اقدامات۔

                ہمیں اپنی تحریکوں کو مزید مضبوط اور وسیع کرنے کے لیے انتھک محنت کرنا ہوگی، دنیا بھر کے دیہی اور تمام محنت کش طبقے کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے کے لیے بنیادی اور دیرپا پالیسی اصلاحات کے لیے عملی جدوجہد پر زور دینا ہوگا۔

                                                                                         جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک

Press Release GPC- Pakistan English

Press Release GPC- Pakistan Sindhi

دیہی عوام کا مطالبہ: خوراک زمین اور موسمی انصاف

پریس ریلیز | بھوک کا عالمی دن | 16 اکتوبر 2023 

 پاکستان کسان مزدور تحریک اور روٹس فار ایکوٹی نے ایشین پیزنٹ کولیشن، پیسٹی سائیڈ ایکشن نیٹ ورک کے تعاون سے 16 اکتوبر، 2023 کو “بھوک کا عالمی دن” کے طور پر منا رہے ہیں۔ جیسے عام طور پر “خوراک کا عالمی دن ” کہہ کر منایا جاتا ہے۔  اس موقع پر سندھ کے شہر گھوٹکی میں کسانوں کے اجتماع (جلسہ) کا اہتمام کیا گیا ہے۔

               یونیسف اور ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں تقریبا 333 ملین بچے (ہر چھ بچوں میں سے ایک) شدید غربت میں زندگی گزاررہے ہیں جبکہ جنوبی ایشیا میں 62 ملین بچے شدید غربت کا شکار ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے اندازے کےمطابق دنیا بھر میں 345 ملین افراد شدید بھوک کا شکار ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے مطابق 2022 میں دنیا میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد 691 ملین سے 783 ملین کے درمیان تھی۔ اقوام متحدہ کے حالیہ بیانیہ کے مطابق اس سال مزید 745 ملین افراد شدید بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بظاہر تو ہم اکیسویں صدی میں ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ اعلی  تکنیکی ترقی بھی ہو رہی ہے لیکن دنیا بڑھتی ہوئی بھوک کا سامنا کر رہی ہے، جن میں دیہی عورتیں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں ، جو کہ نہ صرف بھوک اور غذائی کمی کا شکار ہیں بلکہ مناسب روزگار اور اپنی ذاتی زمین بالخصوص زرعی زمین کی ملکیت سے بھی محروم ہیں۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ میں پاکستان 129 ممالک میں 99ویں نمبر پر ہے، جہاں بھوک کی سطح کو سنگین قرار دیا گیا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام اور خوراک کا عالمی ادارہ  کا خیال ہے کہ 80 لاکھ سے زیادہ افراد ”خوراک کی شدید کمی“ کا سامنا کررہے ہیں۔ مندرجہ بالا صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ خوراک و زراعت میں مسلسل آزاد تجارتی پالیسیوں کا فروغ کا نتیجہ ہے۔

               اعداد و شمار کے مطابق ملک کی مجموعی زرعی زمین کا 67 فیصد صرف پانچ فیصد جاگیردار خاندانوں کے قبضے میں ہے جوکہ بڑھتی ہوئی بھوک اور ملک کے شدید مقروض ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہمارے ملک پر حکمرانی کرنے والے اشرافیہ کی قلیل تعداد نے اسے قرضوں اور مفلوک الحالی کی کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ اس وقت پاکستان مجموعی طور پر 85 ارب امریکی ڈالر کا مقروض ہے، جس کے نتیجے میں شدید معاشی بحران نے عوام کو خودکشی اور اپنے پیاروں کی جان لینے جیسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔ حکومت مختلف ذرائع سے امداد کی بھیک مانگ رہی ہے۔ اب زرعی زمین غیر ملکی اداروں کو لیز پر دی جارہی ہے۔ حکومت نے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن  کونسل  جیسے ادارے بنائے ہیں جن میں مسلح افواج کی غیر معمولی موجودگی ہے۔ (ایس آئی ایف سی) نجکاری اور سرمایہ کاری پر خاص توجہ دے رہا ہے، خاص طور پر خوراک اور زراعت کے شعبے میں اور اس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ خوراک کی بڑے پیمانے پر برآمدات ہوں گی۔ اس کے علاوہ، کارپوریٹ فارمنگ کے لیے بھی زمین لیز پر دی جارہی ہے، جس میں سرمایہ کاروں کو کسانوں، خاص طور پر چھوٹے اور بے زمین کسانوں پر ترجیح دی جارہی ہے جس کے نتیجے میں دیہی آبادیوں کیو مزید سنگین نتائج اور حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

               آئی ایم ایف کی شرائط کے نتیجے میں، ایندھن کی قیمتوں میں ہوشربہ اضافہ ہوا ہے جس سے چھوٹے کسانوں کے لیے خوراک کی پیداوار جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ کسان آبادی کا بڑھتا ہوا قرض ملک میں بے زمینی کو بڑھا رہا ہے۔

ا ن مسائل کا حل  ملک کو فروخت  کرنے میں نہیں   بلکہ خوراک اور زراعت اور قومی صنعت میں خود انحصاری پیدا کرنے میں مضمر ہے۔ کارپوریشنز اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری صرف ملک کو اس کے وسائل سے محروم کرے گی ، جبکہ ہماری زمین اور مزدوری سے بھرپور منافع حاصل کرے گی۔ اس موقع پر یہ اہم ہے کہ ہم خوراک  کی خودمختاری کے بنیاد پر  زراعت کی پالیسی کو اپنائیں، جس میں چھوٹے اور بے زمین کسانوں، خاص طور پر خواتین کو پالیسی کی   تشکیل  اور نفاذ میں مرکزی جگہ دی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زمین کی منصفانہ اور مسانایہ تقسیم کو ترجیح دے کر ملک کو قرضوں اور تنگدستی  سے نکلا جا سکتا ہے، اور ایک قومی صنعت کے قیام میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

!آئیے ہم خوراک کی خودمختاری کے لئے، موسمی  انصاف کے لئے، قومی خودمختاری کے لئے لڑیں

جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک

Press Release Hunger Day 2023 English

Press Release Hunger Day 2023 Sindhi

کسان مزدور عورتوں کا مطالبہ: زمین ، خوراک اور فیصلہ سازی کا اختیار

پریس ریلیز | دیہی عورتوں کا عالمی دن | 15 اکتوبر 2023

پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی ) اور روٹس فور ایکوٹی دیہی عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر عالمی سامراجی پالیسیوں کی جانب اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان پر سوال اٹھاتی ہے۔ ایک طرف تو یوں لگتا ہے کہ نام نہاد ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دنیا بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے خاص طور پر زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے ریاستی سطح پر پالیسی سازی کی جارہی ہے اور بڑھ چڑھ کر حکمت عملیاں ترتیب دی جارہیں ہیں۔ دوسری جانب زراعت کے شعبے سے جڑی آبادیوں میں بھوک اور غذائی کمی بڑھتی جارہی ہےبالخصوص عورتیں اور بچے اس خوراک کی کمی کے شدید متاثرین میں سے ہیں۔ دنیا میں بڑھتی ہوئی بھوک اور غذائی کمی ماضی کے سبز انقلاب کی حقیقت اور جدید مشینری اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہونے والی صنعتی زراعت کی اصلیت اور اس کے پیچھے چھپے سامراجیت کے زمین و خوراک پر قبضے کی اہداف اور جھوٹ کو عیاں کرتی ہے۔

                    یونیسف اور ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں تقریبا 333 ملین بچے (ہر چھ بچوں میں سے ایک) شدید غربت میں زندگی گزاررہے ہیں جبکہ جنوبی ایشیا میں 62 ملین بچے شدید غربت کا شکار ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے اندازے کےمطابق دنیا بھر میں 345 ملین افراد شدید بھوک کا شکار ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے مطابق 2022 میں دنیا میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد 691 ملین سے 783 ملین کے درمیان تھی۔ اقوام متحدہ کے حالیہ بیانیہ کے مطابق اس سال مزید 745 ملین افراد شدید بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بظاہر تو ہم اکیسویں صدی میں ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ اعلی  تکنیکی ترقی بھی ہو رہی ہے لیکن دنیا بڑھتی ہوئی بھوک کا سامنا کر رہی ہے، جن میں دیہی عورتیں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں ، جو کہ نہ صرف بھوک اور غذائی کمی کا شکار ہیں بلکہ مناسب روزگار اور اپنی ذاتی زمین بالخصوص زرعی زمین کی ملکیت سے بھی محروم ہیں۔

                    خاص طور پر پاکستان میں کسان مزدور عورتیں زرعی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں مگر تقریباً سب ہی بے زمین ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ زمین و زراعت میں کسی بھی قسم کی فیصلہ سازی کا اختیار نہیں رکھتیں۔ بیج کی بوائی سے لے کر فصل کی کٹائی تک ، مال مویشیوں کا چارہ پانی کا خیال رکھنے سے لیکر دودھ و دھنے اور ان کی دیکھ بھال کرنے تک، عورتوں کی اولین ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ تمام فصلیں ، خاص طور پر گندم کی کٹائی جو کہ کمرتوڑ محنت طلب کرتی ہے، اور کپاس کی چنائی جو کہ ہاتھ پیروں کے زخمی ہو جانے کا سبب بنتی ہے اور سبزیاں جن میں زہریلی ادویات کے استعمال کی وجہ سے کئی طرح کی جلدی اور دیگر بیماریاں ہو جاتی ہیں، عورت ہی کے بل بوتے سرانجام پاتی ہیں۔ ان سب کے باجود بھی یہی طبقہ سب سے زیادہ پس ماندہ اور ہر طرح کے ظلم کا شکار ہے۔

                    سامراج نیولبرل ازم پالیسیوں کو ہماری معاشی بدحالی کے حل کے طور پر پیش کرتا ہے، لیکن درحقیقت یہی معاشی غارت گری کی اصل بنیاد ہے۔نوآبادیات سے لے کر آج تک ، زمین کے حقیقی کاشتکاروں کو زبردستی ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیااور ان جاگیرداروں کو مسلط کر کے سامراج کے تسلط اور اس کی حاکمیت کو قائم اور برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جس کا مقصد خوراک کے نظام پر قبضہ جما کر بین الاقوامی کمپنیوں کے منافع کے حصول کو یقینی بنایا ہے۔

منافع خور اور منافع کے ہوس میں کسی بھی حدتک جانے والا یہ سامراجی پیداواری نظام جو کہ رکازی ایندھن (فوسل فیول) کے زور پر کھڑا ہواہے، موسمی بحران کا ذمہ دار ہے۔ لیکن سامراجی طاقیتں غیرپائیدار پیداوار اور کھپت کو منافع کی لالچ میں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جس کا خمیازہ کسان مزدور بالخصوص کسان مزدور عورتون کو اپنی زمین گھر، کھیت، فصلوں اور مال مایشیوں کے نقصانات کی شکل میں بھگتنا پڑرہا ہے۔ نہ صرف موسمی بحران اور اس کے نتیجے میں ہونے والی  تباہی ، بلکہ قرضوں کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے جس کا کوئی تعلق ہم مزدور اور کسان عوام سے نہیں ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جانب سے سونپی پالیسیاں (خاص طور پر   ملکی اشرافیہ کے، لیے گئے قرضہ جات کی فراہمی کے عوض اور اس قرضہ کوواپس کرنے کی حکمت عملی کے طور پر ، اخراجات کی کمی کے نام پر دی جانی والی سبسڈیاں اور ملکی آمدنی بڑھانے کے نام پر محصولات میں بے تحاشہ اضافہ) عوام کو بھوک و افلاس، غربت میں دھکیلنے اورزرعی پیداوار کے نظام کو مزید مفلوج کر رہی ہیں۔

                    پاکستان کسان مزدور تحریک حکومت سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اناج کی برآمد کے لیے ملکی زمین کو لیز پر دینے کے بجائے سرمایہ دار سامراجی ممالک کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے ہر بے جابات تسلیم کرنے کے بجائے قرضوں کو منسوخی کے ساتھ ساتھ ہر اس پالیسی کو ماننے سے انکار کردیں جو اس ملک کی عوام خاص طورپر دیہی آبادیوں، کسان مزدور عورتوں کے مفاد کے خلاف ہو۔ پی کے ایم ٹی یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ کسانوں ، خاص  طور پر زرعی مزدور عورتوں میں زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم ، محفوظ اور غذائیت سے بھر پور خوراک کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ مختصر یہ کہ ہم ایک ایسی پالیسی کا مطالبہ کرتے ہیں جو خوراک کی خود مختاری ، موسمی انصاف، معاشی اور سماجی انصاف اور عوامی احتساب کی حامل ہو۔

دیہی کسان مزدور عورت مطالبہ کرتی ہے: خوراک کی خودمختاری کا، زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کا، موسمی انصاف کا؛

دیہی کسان مزدور عورت رد کرتی ہے: پدرشاہی نظام کا ، جاگیرداری نظام کا، سرمایہ داری نظام کا، سامراجیت کا۔ عالمیگریت اور نیولبرل ازم کی بنیاد پر بنائے جانے والی ہر پالیسی کا، ان پالیسیوں کو بنانے اور زبردستی لاگو کرنے والے ہر ملکی ، غیرملکی ، قومی، کثیرالقومی اور بین الاقوامی ادارے کا اور ساتھ ہی ساتھ بغاوت اور نجات کا اعلان کرتی ہے۔

جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک

Press Release Rural Women Day 2023 English

بچاؤ دیہی انمول اثاثے؛ مہم برائے مال مویشی و دودھ

پریس ریلیز  22 جون 2023
پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) نے 8 مارچ،  2023 کو ساہیوال میں ”بچاؤ دیہی انمول اثاثے: دودھ اور مال مویشی شعبہ کے کارپوریٹ قبضے کے خلاف مہم“ کا آغاز کیا تھا۔ پی کے ایم ٹی کے مطابق دودھ اور مال مویشی کے شعبے میں کمپنیوں کے غلبہ کو ممکن بنانے کے لیے خالص خوراک کے قوانین کے نفاذ کو ہتھیار کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ مختلف صوبوں بالخصوص پنجاب کی پیور فوڈ اتھارٹیز بظاہر اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ خالص قدرتی کھلا دودھ آلودہ ہے، لہذا کسان سمیت دودھ کی تمام تجارتی پیداوار اور فروخت کرنے والے اداروں کو پنجاب فوڈ ریگولیشنز 2018 کم از کم پیسچرائزیشن گائیڈ لائنز اور اسٹینڈرڈز پر عمل کرنا ہوگا اور پیور فوڈ اتھارٹی میں اپنا اندراج کرانا ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دودھ پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے اور ہم دودھ کی پیداوار میں تقریباً خود مختار ہیں۔ اگرچہ کسانوں کی اکثریت کے پاس زمین نہیں ہے، لیکن ان کے پاس مویشی ہیں اور مویشیوں کی پیداوار و فروخت کے ساتھ ساتھ دودھ اور دودھ سے تیار کردہ دیگر مصنوعات پر بھی کافی حد تک اختیار ہے۔ دیہی علاقوں میں 80 فیصد دودھ چھوٹے پیمانے پر پیدا ہوتا ہے اور 97 فیصد دودھ تازہ کھلے اور بقیہ صرف تین فیصد ڈبہ بند شکل میں منڈی میں بکتا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے کہ جس کے پیچھے عالمی تجارتی ادارہ (ڈبلیو ٹی او) کی ایماء پر خالص خوراک کے قوانین کو کسانوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔
دودھ اور مال مویشی کے شعبے کے تناظر میں امریکہ، جرمنی، فرانس، آسٹریلیا اور دیگر سرمایہ دار صنعتی ممالک کی طاقتور حکومتیں اپنی زرعی پالیسیوں مثلاً یورپی یونین (ای یو) کی (سی اے پی) اور یو ایس فارم بل پالیسی کے ذریعے اپنے کسانوں کو اربوں ڈالر اور یورو کی امداد فراہم کرتی ہیں۔ 2023-2027 کی سی اے پی پالیسی میں، یورپی یونین نے اپنے کسانوں کے لیے 307 بلین یورو کی مدد فراہم کی ہے۔ اسی طرح فارم بل 2018-2023 کے ذریعہ امریکہ اپنے کسانوں کو 428 ارب ڈالر کی مدد فراہم کررہا ہے۔ دودھ کے شعبہ کے لیے خصوصی سبسڈی فراہم کی جاتی ہے تاکہ دودھ کی اضافی پیداوار) کے لیے اسٹوریج اور اضافی ڈیری مصنوعات کو سرکاری سطح پر خریدنے کے لیے مراعات دی جاتی ہے۔ چونکہ کھپت پیداوار سے کم ہے لہذا کمپنیاں دودھ کو خشک دودھ یا اسکیمڈ دودھ میں تبدیل کرتی ہیں اور پھر ان مصنوعات کے لیے منڈی ڈھونڈتی ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ، یورپی یونین اور آسٹریلیا کی کمپنیاں گائے اور بھینس کی بوائن جینیات (زیادہ پیداوار والے مویشیوں کی افزائش) میں بھی مہارت رکھتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے زندہ مویشیوں کے لیے بھی منڈیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دودھ کی صنعتی طرز پیداوار ماحول کے لیے تباہ کن ہے اور گلوبل وارمنگ کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ اس لیے پی کے ایم ٹی ہمارے دیہی اثاثوں پر سامراجی کارپوریٹ قبضے کی شدید مخالفت کرتی ہے۔
انہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کہنے پر ڈبلیو ٹی او اور دیگر سرمایہ کاری کے معاہدے کیے جاتے ہیں تاکہ پاکستان جیسے ممالک کی دودھ اور مال مویشی منڈیوں پر قبضہ کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر ورلڈ بینک کے ماتحت ادارے انٹرنیشنل فنانشل کارپوریشن نے نیدر لینڈ کی دودھ کی سب سے بڑی کمپنی فریز لینڈ کیمپینا کو 145 ملین ڈالر فراہم کیے تاکہ پاکستان کی سب سے بڑی دودھ کی کمپنی اینگرو فوڈز کا 51 فیصد حصص حاصل کرکے پاکستانی ڈیری انڈسٹری پر اجارہ داری قائم کی جاسکے۔
نیسلے اور اس جیسی دیگر بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہماری منڈیوں پر قابض ہونے کے لیے دودھ کی پیداوار اور منڈیوں پر چھوٹے کسانوں کا اختیار ختم کرنا ہوگا۔ ڈبلیو ٹی او کے معاہدے مثلاً اے او اے، ٹرپس، ایس پی ایس اور ٹی بی ٹی کا مقصد پاکستان جیسے ممالک کی منڈیوں پر زبردستی قبضہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
دودھ اور مال مویشی شعبہ پر کارپوریٹ کنٹرول کے خلاف پی کے ایم ٹی کی سہماہی مہم کی اختتامی تقریب آج 22 جون کو منعقد ہوئی، جس دن ایک بہادر کسان عورت مائی بختاور کو اپنی برادری کی اناج کے قبضے کے خلاف مزاہمت کرتے ہوئے جاگیرداروں نے قتل کردیا تھا۔ مہم کی اختتامی تقریب میں ہم اپنے دودھ اور مال مویشی شعبہ پر کمپنیوں کے قبضے کے خلاف لڑنے اور زرعی زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کے لیے عزم کا اعیادہ کرتے ہیں۔ پمفلٹ تقسیم کے ذریعے ہم چاروں صوبوں کے 57 اضلاع اور اسلام آباد میں پانچ لاکھ سے زائد پاکستانی شہریوں کو خالص خوراک کے قوانین کے مذموم مقاصد سے آگاہ کیا گیا۔ متعدد ٹی وی ٹاک شوز میں حصہ لیا، ریڈیو پروگرام کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا گیا۔
ہمارا مقصد ملک کے کونے کونے تک پہنچ کر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ڈبہ بند دودھ اور دودھ سے بنے دیگر مصنوعات کا بائیکاٹ کا مطالبہ کرنا ہے، ہماری دیہی آبادیوں کی اکثریت اس شعبہ سے اپنا روزگار حاصل کرتی ہے۔ معاشی طور پر پاکستان پہلے ہی 126.3 بلین امریکی ڈالر (تقریباً 337 کھرب روپے) کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور اس قرض کے بوجھ تلے عوام فاقوں پر مجبور ہے، ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی پیداواری صنعت کو پائیدار اور مضبوط بنیاد پر کھڑا کریں خصوصاً اپنے قیمتی ماحولیات سے ہم آہنگ زرعی، مال مویشی اور دودھ کی پیداواری نظام کا ناصرف تحفظ کریں بلکہ اس کو بڑھائیں۔ تاکہ وقت کی ضرورت کے تحت سامراجی تسلط
اور ماحولیاتی تباہی سے اپنا بچاؤ کیا جاسکے۔
!۔ ڈبہ بند دودھ کا بائیکاٹ
!۔ دودھ اور مال مویشی شعبے پر کمپنیوں کا قبضہ نامنظور
!۔ کسان عورتوں کے حقوق کے لیے کھڑے ہوں
!۔ چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے حقوق کے لیے کھڑے ہوں
۔ دودھ کی خود مختاری کے لیے کھڑے ہوں!۔زمین کے منصفانہ اور مساویانہ بٹوارے کے لیے کھڑے ہوں
!۔ موسمی انصاف کے لیے کھڑے ہوں
!۔ خوراک کی خودمختاری کے لیے کھڑے ہوں
جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک

#SaveOurInvaluableRuralAssets زراعت کے شعبے میں مال مویشی کی اہمیت کیا ہے؟؟ | Agri Business l

بچاؤ دیہی انمول اثاثے؛ مہم برائے مال مویشی و دودھ

پریس ریلیز| 8 مارچ 2023

پاکستان کسان مزدور تحریک نے مزدور عورتوں کے عالمی دن 8 مارچ، 2023 کو ”بچاؤ دیہی انمول اثاثے؛ مہم برائے مال مویشی و دودھ“ کا آغاز کیا ہے۔ اس مہم کا مقصد حکومت کے تازہ قدرتی کھلے دودھ پر مکمل پابندی کے قانون، دودھ اور مال مویشی کے شعبے میں بڑھتی ہوئی آزاد تجارتی پالیسیوں اور اس شعبہ پر ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے قبضے کے خلاف کسان و عوام کو خبردار کرتے ہوئے اپنے خوراک و روزگار اور ماحول کے بچاؤ کے لیے عوام کو متحرک کرنا ہے۔


پنجاب اور سندھ فوڈ اتھارٹیوں نے دودھ کے شعبہ میں بڑھ چڑھ کر قانون سازی شروع کی ہے۔ اس حوالے سے پنجاب اور سندھ فوڈ اتھارٹی نے 2018 میں پیور فوڈ قانونی ضابطے (ریگیولیشنز) جاری کیے ہیں۔جس کے فوری اطلاق کے لیے اب پنجاب حکومت لاہور اور اس کے بعد پورے پنجاب میں تازہ قدرتی کھلے دودھ پر مکمل پابندی کے لیے بار بار اعلانات کررہی ہے۔ ان قانونی ضابطوں کے تحت تازہ قدرتی کھلے دودھ کو پیسچورائز کرنے کے بعد ہی فروخت کیا جاسکتا ہے۔ وہ کاروبار جو کہ دودھ اور دودھ سے بنائی جانے والی دیگر اشیاء کو تیار کررہے ہیں ان سب کو حکومت سے فروخت کا لائسنس لینا ہوگا۔

   

اس قانون کے پیچھے کونسے طاقت ور گروہوں کا ہاتھ ہے؟ یہ قوانین عالمی تجارتی ادارہ ڈبلیو ٹی او کے تحت سینیٹری اور فائیٹو سینیٹری معاہدہ اور ٹیکنیکل بیریئرز ٹو ٹریڈ کو مد نظر رکھ کر بنائے گئے ہیں۔ ان قوانین کو دراصل بڑی بڑی دیو ہیکل دودھ اور مال مویشی کے سرمایہ دار اور سرمایہ کار کمپنیوں کی ایما پر کیا جارہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر دودھ اور دودھ سے تیار کردہ مکھن، پنیر، ملائی اور دیگر مصنوعات یہی اجارہ دار کمپنیاں تیار اور فروخت کرتی ہیں اور بے تحاشہ منافع کماتی ہیں۔ ان کے بالمقابل چھوٹے اور بے زمین کسان گھرانے ہیں جن میں خاص کر اس شعبے سے منسلک مزدور کسان عورت کی سخت محنت ہمارے پورے ملک کو دودھ اور گوشت جیسی انمول غذا فراہم کرتے ہیں۔ دراصل اجارہ دار کمپنیاں ان ہی لاکھوں گھرانوں کی روزی اور خوراک پر ڈاکہ ڈال رہی ہیں۔ دیہی کسان مزدور عورت کا زراعت بالخصوص مال مویشی اور دودھ کی پیداوار میں کلیدی کردار کی وجہ سے ہی اس مہم کا آغاز مزدور عورتوں کے عالمی دن 8 مارچ سے کیا جارہا ہے۔ Continue reading

بھوک کا عالمی دن 2022: خوراک کی خود مختاری اور موسمیاتی انصاف کی جدوجہد

پریس ریلیز 16 اکتوبر 2022

زراعت اور خوراک کا عالمی ادارہ فاؤ دنیا کی اشرافیہ کے ساتھ ملکر آج خوراک کا عالمی دن منا رہی ہے جبکہ چھوٹے اور بے زمین کسانوں، شہری اور دیہی مزدوروں اور عوام کے لیے یہ بھوک کا عالمی دن ہے۔ پوری دنیا میں بھوک اور قحط کی موجودہ صورتحال عالمگیریت کے بھیانک چہرے کی عکاسی کرتا ہے۔

عالمی سطح پر بھوک کے اعداد و شمار ایک بار پھر بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ 2021 میں، دنیا بھر میں تقریباً 2 ارب 30 کروڑ افراد غذائی کمی اور غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور تقریباً 83 کروڑ افراد بھوک کا شکار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جولائی 2022 میں 82 ممالک شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں جس سے 34 کروڑ 50 لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہیں۔

اس بھوک کو مزید ہوا سامراج کا پیدا کردہ موسمی بحران دے رہا ہے۔ صرف پاکستان میں حالیہ مون سون کی شدید بارشوں کے نتیجے میں 80 لاکھ ایکڑ سے زائد کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مال مویشی، بڑی تعداد میں گندم کا ذخیرہ اور جانوروں کا ذخیرہ شدہ چارہ 8 ہفتوں کے دوران ہونے والی مسلسل بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ضائع ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل ہے۔ اقوام متحدہ ادارہ برائے انسانی فلاح نے عندیہ دیا ہے کہ تقریباً 57 لاکھ سیلاب زدگان کو اگلے تین ماہ میں خوراک کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق حالیہ سیلاب سے پہلے بھی 16 فیصد آبادی کم یا شدید غذائی کمی اور عدم تحفظ کا شکار تھی۔ Continue reading

Govt asked to protect rights of small, landless farmers

Bureau Report | March 30, 2022

PESHAWAR: Representatives of farmers, agriculture workers and non-governmental organisations said here on Tuesday that the government was allowing free market forces to take over land, livestock, food production and processes as well as markets instead of promoting small and landless farmers.

They vowed to fight all forms of feudal encroachments and grabbing of agricultural land by big corporations and to strive for food security.

Addressing a press conference at Peshawar Press Club, representatives of Pakistan Kisan Mazdoor Tehreek (PKMT) and peasant movements demanded of the federal government to provide substantial economic relief through social protection initiatives to all the marginalised people, especially women.

The presser was organised in connection with the Day of the Landless. It was addressed by representatives from across the country, including PKMT general secretary Tariq Mehmood, Dr Azra Saeed of Roots for Equity, Zahoor Joya from Multan, Ali Nawaz from Ghotki, Nabi Jan from Peshawar and others.

“Even during the Covid-19 pandemic, instead of promoting and implementing policies that would promote sustainable food system, the United Nations supported mega business platforms and corporations to promote industrial-chemical methods of agricultural production,” he said.

Mr Mehmood said that corporate farming systems, including those being used in the dairy and livestock sector, were responsible for eviction of small and landless farmers from their communities. A key example, he claimed, was the authority’s taking away control of the fresh milk sector from small producers and giving it to huge corporations.

He said that digitalisation of the food production system would allow further encroachment of not only agro-chemical corporations, but also financial and IT corporations to control agriculture.

Published in Dawn, March 30th, 2022

https://www.dawn.com/news/1682440/govt-asked-to-protect-rights-of-small-landless-farmers