پریس ریلیز ، 16 اکتوبر 2025
پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) اور روٹس فار ایکوٹی دیگر علاقائی اور عالمی تنظیموں ایشین پیزنٹ کولیشن (اے پی سی) اور پیپلز کولیشن آن فوڈ سورنٹی (پی سی ایف ایس) کے اشتراک سے پچھلے کئی سالوں سے 16 اکتوبر خوراک کے عالمی دن کو ”بھوک کے عالمی دن“ کے طور پر مناتی ہے۔ اس سلسلے میں پی کے ایم ٹی نے سکھر، خیرپور، شکارپور اور ماتلی پریس کلب میں پریس کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ اس کے علاوہ پشاور پریس کلب کے سامنے ہری پور اور پشاور کے کسانوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا، جبکہ جام پور میں بھی احتجاج کا اہتمام کیا گیا۔
پاکستان کسان مزدور تحریک کے رہنماؤں نے حکومت پاکستان کی کسان دشمن پالیسیوں اور زرعی خود مختاری پر حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سال بھی حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت کا اعلان نہ کرنے سے چھوٹے اور بے زمین کسان بدترین معاشی دباؤ کا شکار ہیں۔ پی کے ایم ٹی کے مطابق گندم پاکستان کی غذائی خود مختاری کی علامت ہے مگر حکومت کا کسانوں کے لیے امدادی قیمت طے نہ کرنا دراصل ان کی محنت اور روزگار پر کاری ضرب ہے۔ اس کے نتیجے میں کسان پیداواری لاگت بھی پوری کرنے سے قاصر ہیں جب کہ کھاد، بیج اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ اُن کی مشکلات میں مزید اضافہ کررہا ہے اور زرعی بین الاقوامی کمپنیاں بیش بہا منافع کمارہی ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی غذائی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کی 42.1 فیصد آبادی یعنی 10 کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد کے لیے مناسب اور مستقل خوراک میسر نہیں۔ گلوبل ہنگر انڈکس کے مطابق 2025 میں بھوک کے حوالے سے پاکستان دنیا کے 123 ملکوں میں 106 ویں نمبر پر ہے اور ان کے مطابق بھوک کی صورتحال شدید ہے۔
پی کے ایم ٹی کے نمائندوں نے کہا کہ عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور موسمی بحران کے باوجود پاکستان کے حکمران طبقے نے زراعت کو سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے تحت آزاد منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ایک طرف زراعت میں ڈیجیٹلائیزیشن، مال مویشی شعبہ میں غیر ملکی نسلیں اور جینیاتی بیجوں کے فروغ جیسی نیو لبرل پالیسیوں کو فروغ دیا جارہا ہے جو کہ صرف اور صرف صنعتی زراعت کو بڑھاتے ہوئے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ دوسری طرف گندم کی امدادی قیمت نہ ہونے سے مقامی پیداوار میں کمی اور غذائی عدم تحفظ میں مزید اضافہ یقینی ہے جو کہ پہلے ہی شدید ہے۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ اثر چھوٹے اور بے زمین کسانوں، مزدوروں اور دیہی عوام پر پڑتا ہے۔ یہ صورتحال کسانوں کو مجبور کررہی ہے کہ وہ گندم کی کاشت کم کردیں یا زمین بیچنے پر مجبور ہو جائیں جس کے نتیجہ میں گندم کی مقامی پیداوار میں کمی اور خوراک کے لیے درآمد پر انحصار کرنا پڑے گا جو ملکی خومختاری کے لیے خطرناک ہوگی۔ بین الاقوامی سرمایہ دار طبقہ یہی چاہتا ہے کہ درآمد کو بڑھاکر اپنے منافع میں مزید اضافہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ زرعی پیداوار کو اتنا مشکل بنا دیا جائے کہ کسان کھیتی باڑی چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں اور زرعی شعبے پر محض جاگیردار، سرمایہ دار اور سامراجی کمپنیوں کی اجارہ داری ہوجائے۔
ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے روزگار، خوراک اور خود مختاری کے لیے پی کے ایم ٹی درج ذیل مطالبات پیش کرتی ہے۔
۔ فوری طور پر گندم کی کم از کم امدادی قیمت کا اعلان کیا جائے جس میں پیداواری لاگت کے تناسب سے کم از کم 25 فیصد منافع شامل ہو۔
۔ موسمی انصاف اور چھوٹے اور بے زمین کسانوں پر مبنی زرعی پالیسی تشکیل دی جائے، جس میں چھوٹے کسانوں کی رائے اور عمل درآمد کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔
۔ خوراک کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرتے ہوئے عوامی بنیاد پر زرعی و تجارتی پالیسیاں بنائی جائیں تاکہ خوراک منڈی کے بجائے عوام کے اختیار میں ہو۔
۔ خور اک کی قیمت میں کمی خاص طور پر آٹا،چاول، چینی ، کھانے کے تیل میں فوری کمی کی جائے۔
۔ مہنگائی میں کمی کرتے ہوئے بجلی، گیس ، ٹرانسپورٹ کی نرخ میں فوری کمی کی جائے۔
۔ ملکی اور زرعی خودمختاری کے لیے بیجوں پر کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کی جائے اور مقامی بیجوں کے ساتھ ساتھ پائیدار زراعت اور خوراک کی خود مختاری کو فروغ دیا جائے۔
۔ زمینوں کا منصفانہ اور مساویانہ بٹوارہ کیا جائے۔
پی کے ایم ٹی نے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت نے کسانوں کے جائز مطالبات پر فوری عمل نہ کیا تو ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ بھوک کے عالمی دن کے موقع پر تحریک نے عوام، محنت کشوں، طلبہ، شہری تنظیموں اور دیگر سے اپیل کی ہے کہ وہ خوراک، زمین اور زندگی کے حق کے دفاع میں کسانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔
جاری کردہ : پاکستان کسان مزدور کسان تحریک





