حکومت کی بے حسی نے عوام کو شدید بھوک کا شکار کردیا ہے!

پریس ریلیز ، 16 اکتوبر 2025

پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) اور روٹس فار ایکوٹی دیگر علاقائی اور عالمی تنظیموں ایشین پیزنٹ کولیشن (اے پی سی) اور پیپلز کولیشن آن فوڈ سورنٹی (پی سی ایف ایس) کے اشتراک سے پچھلے کئی سالوں سے 16 اکتوبر خوراک کے عالمی دن کو ”بھوک کے عالمی دن“ کے طور پر مناتی ہے۔ اس سلسلے میں پی کے ایم ٹی نے سکھر، خیرپور، شکارپور اور ماتلی پریس کلب میں پریس کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ اس کے علاوہ پشاور پریس کلب کے سامنے ہری پور اور پشاور کے کسانوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا، جبکہ جام پور میں بھی احتجاج کا اہتمام کیا گیا۔

پاکستان کسان مزدور تحریک کے رہنماؤں نے حکومت پاکستان کی کسان دشمن پالیسیوں اور زرعی خود مختاری پر حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سال بھی حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت کا اعلان نہ کرنے سے چھوٹے اور بے زمین کسان بدترین معاشی دباؤ کا شکار ہیں۔ پی کے ایم ٹی کے مطابق گندم پاکستان کی غذائی خود مختاری کی علامت ہے مگر حکومت کا کسانوں کے لیے امدادی قیمت طے نہ کرنا دراصل ان کی محنت اور روزگار پر کاری ضرب ہے۔ اس کے نتیجے میں کسان پیداواری لاگت بھی پوری کرنے سے قاصر ہیں جب کہ کھاد، بیج اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ اُن کی مشکلات میں مزید اضافہ کررہا ہے اور زرعی بین الاقوامی کمپنیاں بیش بہا منافع کمارہی ہیں۔

Continue reading

سامراجی جنگوں، قرضوں ، موسمی بحران اور عدم مساوات کے خلاف عوامی محاذ

پریس ریلیز | 15 مئی 2025

پاکستان کسان مزدور تحریک(پی کے ایم ٹی )    ضلع شکارپور نے  چھٹا ضلعی اجلاس شکارپور سامراجی جنگوں، قرضوں، موسمی بحران اور عدم مساوات کے خلاف عوامی محاذ عنوان سے انعقاد کیا، جس کا مرکزی موضوع “یوم نکبہ” تھا۔ اس اجلاس کا مقصد فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا، ان کی آزادی کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنا، اور سامراجیت و صیہونیت کے خلاف عالمی مزاحمت کی حمایت کرنا تھا۔ اس موقع پر مقامی کسانوں، مزدوروں، سماجی کارکنوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی اظہار یکجہتی کا اظہار کیا۔ Continue reading

مزدور کے خلاف معاشی استحصال اور سامراجی جنگ بند کرو

یکم مئی 2025| پریس ریلیز

پاکستان کسان مزدور تحریک کی جانب سے یکم مئی 2025 کو 600 لیبر کالونی حطار ہری پور میں مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر ایک اہم اجلاس کا انعقاد کیا گیا، جس میں 150 سے زائد مزدوروں، کسانوں، اساتذہ، صحافی، سول و سماجی خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ اس موقع پر پاکستان کسان مزدور تحریک نے حطار صنعتی علاقے کے مزدوروں کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھرپور آواز اٹھائی۔ مقررین نے زور دیا کہ حطار صنعتی علاقے کے تمام مزدوروں کو رجسٹرڈ کیا جائے تاکہ انہیں ای او بی آئی، سوشل سیکورٹی، ورکر ویلفیئر فنڈ، جہیز گرانٹ، ڈیتھ گرانٹ، تعلیم و سکالرشپس، پنشن، اولڈ ایج بینیفٹس اور دیگر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ کم از کم اجرت کا نفاذ یقینی بنایا جائے اور اجرت بینک کے ذریعے دی جائے تاکہ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔ مقررین نے کہا کہ مزدور ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ان کی محنت کے بغیر نہ صنعت چل سکتی ہے اور نہ ملک ترقی کر سکتا ہے، اس لیے مزدوروں کے ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور صوبائی حکومت خیبر پختونخواہ اس پر سختی سے عملدرآمد کرائے۔ Continue reading

PKMT holds event to mark Int’l Day of Landless People

Staff Reporter | March 30, 2025

Peshawar  –  For the past several years, the Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek (PKMT), in collaboration with other peasant and anti-imperialist movements such as Roots for Equity, the Asian Peasant Coalition (APC), the People’s Coalition on Food Sovereignty (PCFS), the Pesticide Action Network Asia Pacific (PANAP), and the International League of Peoples’ Struggle (ILPS), has been celebrating March 29th as the International Day of Landless People.

The aim of commemorating this day is to highlight the struggles of small and landless peasants for food sovereignty and genuine agrarian reforms worldwide, according to a press release issued here on Saturday. The day also serves to expose the oppression, coercion, and exploitation by multinational corporations and the imperialist countries that represent them, as well as the governments of Third World countries. Continue reading

PKMT flays govt for `not protecting interests of farmers`

Bureau Report  30-03-2025

PESHAWAR: Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek national coordinator Tariq Mehmood on Saturday said that the government was implementing neo-liberal policies instead of protecting the interests of farmers, espe cially small and landless ones, resulting in mass destruction of the working class.

PKMT national coordinator Tariq Mehmood told reporters here on the International Day of Landless Peasants that his organisation was committed to fighting for the rights of small and landless peasants and the working class. Continue reading

!کسان زمینی ملکیت کے لیے اٹھ کھٹرے ہوں

پریس ریلیز | 29 مارچ بے زمین کسانوں کا عالمی دن

پچھلے کئی سالوں سے پاکستان کسان مزدور تحریک دیگر کسان مزدور اور سامراج مخالف تحریکوں،ایشین پیزینٹ کولیشن (اے پی سی) ، پیپلز کولیشن آن فوڈ سورنٹی (پی سی ایف ایس )، پیسٹی سائیڈایکشن نیٹ ورک ایشیا پیسیفک (پین اے پی )اور انٹرنیشنل لیگ آف پیپلز اسٹراگل (آئی ایل پی ایس)کے اشتراک سے 29 مارچ کو بے زمین کسانوں کے عالمی دن کے طور پر منارہی ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خوراک کی خود مختاری اور دنیا بھر میں حقیقی زرعی اصلاحات کے لیے چھوٹے اور بے زمین کسانوں کی جدوجہد کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ان کی نمائندگی کرنے والی سامراجی ممالک کے ساتھ ساتھ تیسری دنیا کے ممالک کی حکومتوں کے ظلم، جبر اور استحصال کو بے نقاب کرنا بھی شامل ہے۔

        Continue reading

!عوامی مزاحمتی تحریکیں، امید آزادی کی روشن راہیں

یکم مئی 2024| پریس ریلیز

دنیا بھر میں یکم مئی، 1886 میں شکاگو کے مزدوروں کی جدوجہد کی یاد میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس موقع پر پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) اور روٹس فار ایکوٹی نے حطار انڈسٹریل اسٹیٹ ہری پور میں ”عوامی مزاحمتی تحریکیں: امید آزادی کی روشن راہیں“ کے عنوان سے منعقد کیا۔ جس میں بڑی تعداد میں مزدوروں اور کسانوں نے شرکت کی۔

مقررین نے عالمی معاشی بحران کے پس منظر میں بات کرتے ہوئے کہا کہ حالات سے ثابت ہے کہ سرمایہ داری اپنے عروج پر سامراجیت کی شکل میں واضح نظر آرہی ہے۔ بڑے پیمانے پر عوام خصوصاً مزدوروں پر جبر اس کی ایک شکل ہے۔ ایک طرف صیہونی اسرائیل نے فلسطینی عوام پر ظلم اور بربریت کی انتہا کردی ہے اور دوسری طرف عالمی طور پر خصوصاً پاکستان کے مزدوروں کا استحصال اپنے عروج پر ہے۔

پاکستان میں جاری معاشی بحران کا سبب سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام ہے۔شدید معاشی اور سماجی مسائل میں پسے ہوئے مزدور طبقہ کو عالمی مالیاتی اداروں خصوصاً آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس طبقے کے لیے صحت، تعلیم اور بہتر روزگار کا حصول پہلے ہی جان جوکھوں کا کام تھا مگر بڑھتی ہوئی مہنگائی جس میں کھانے پینے کی ضروری اشیاء چینی، آٹا، دودھ، مرغی، سبزی، گوشت، آلو، ٹماٹر، تیل سمیت دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہوشروبا اضافہ کے ساتھ ساتھ پیٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے پسے ہوئے طبقات خصوصاً مزدور اور کسان عورتوں کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ 2022-23 کے دورانیہ میں مہنگائی 12.2 سے بڑھ کر 28.2 ہو گئی ہے،اور غربت کے سطح 34.2 سے 39.4 ہو گئی ہے۔

حکومتی معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں سیکڑوں کارخانوں کی بندش کے نتیجہ میں ہزاروں مزدور بے روزگاری کا شکار ہیں، بھوک غربت میں اضافہ بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ اور جو مزدور کارخانوں میں کام کررہے ہیں ان سے زیادہ گھنٹے کام لیا جارہا ہے۔ نہ ہی انہیں اضافی اجرت دی جارہی اور نہ ہی انہیں کوئی سہولیات دی جارہی ہیں۔سرمایہ دارانہ کمپنیاں چاہے ملکی ہوں یا بین الاقوامی، مزدوروں کو کئی ہربوں سے غلاموں جیسے حالات میں رکھتی ہیں۔ مزدوروں کو ناپکی نوکری فراہم کی جاتی ہے اور ناہی مزدوری پر رکھنے کے بعد انہیں ملازمت کا کوئی ثبوت دیا جاتا ہے۔، مزدوروں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ ان کے کیا حقوق ہیں۔ یہ مزدور تنظیموں کی کوتاہی ہے کہ مزدور اپنے حقوق سے بے خبر ہیں۔

معاشی بحران کے ساتھ ساتھ موسمی بحران نے حالات کو مزید بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حالیہ بے موسمی بارش کے نتیجے میں خیبرپختونخواہ،پنجاب اور بلوچستان پر وسیع پیمانے پر تباہی سے گندم جیسی خوراک کی انتہائی اہم فصل بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ یاد رہے کہ 2022 کے بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے سندھ اور پنجاب میں کسانوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کے خاتمہ کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی اقدام تودرکنار حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے ملک دشمن اور عوام دشمن معاہدہ کے تحت مزید معاشی پستی کی جانب گامزن ہے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ملکی قرضوں میں مزید اضافہ کرتی جارہی ہے۔ حکومت کی ترجیح عوامی مسائل کے حل کے بجائے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کو نسل جیسے ادارے پرہے، جس میں مسلح افواج کی غیر  معمول موجودگی ہے۔ ایس آئی ایف سی نجکاری اور سرمایہ کاری پر بالخصوص خوراک اور زراعت کے شعبے میں خاص توجہ دے رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ خوراک کی بڑے پیمانے پر برآمدات ہوں گی جس کی وجہ سے ملک میں خوراک کی کمی ساتھ ساتھ مہنگی بھی ہو جائیگی۔

پاکستان کسان مزدور تحریک مطالبہ کرتی ہے کہ

۔ ترقی پزیر ممالک خصوصاً پاکستان کے غیر ملکی قرضہ جات میں سہولت کے بجائے ان قرضوں کی منسوخی۔
۔ غیر منصفانہ تجارتی معاہدوں کی معطلی اور ان پر ازسرنو بات چیت۔
۔ انسانی اور جمہوری حقوق کی پاسداری۔
۔ سرکاری نظام کے تحت محنت کش و کسان مزدوروں کے لیے سماجی تحفط بشمول صحت عامہ۔
۔ دفاعی بجٹ میں کٹوتی اور عوامی صحت اور سماجی خدمات کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم کی فراہمی۔
۔ نقدآور فصلوں کے بجائے گندم اور چاول کی فصلوں پر کسانوں کو سہولیات اور مراعات کی فراہمی تاکہ عوام کو غذائی بحران بچایا جاسکے۔
۔ زرعی زمین غیر ملکیوں کو دینے کے بجائے مقامی کسانوں میں مساویانہ اور منصفانہ بنیادوں پر تقسیم کی جائے۔
۔ مقامی صنعت کو فروغ دیا جائے اور ان پر بھاری ٹیکس کا خاتمہ کیا جائے۔نجکاری کا خاتمہ اور مزدوروں کو تمام مراعات سمیت پکی نوکری یقینی بنائی جائے۔
۔ کارخانوں میں عورتوں کو بھی باوقار روزگار سمیت تمام مراعات یقینی بنائی جائیں۔
۔ گیس، بجلی،خوراک اور دیگر ضررویات کی اشیاء کی قیمتوں میں عوام کی پہنچ کے مطابق فوری کمی کی جائے۔
جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک؛

صیہونی اسرائیلی اور سامراجی مصنوعات کا بائیکاٹ

               اس وقت  پوری دنیا   میں شدید انتشار اور بحران نظرآرہا ہے ۔سرمایہ داری عروج پر ہے اور سرمایہ داری جب عروج پر آتی ہے تو اس کو ہم سامراجیت کہتے ہیں۔ سامراجیت اس وقت پوری کوشش میں ہے  کہ دنیا کے تمام تر وسائل پر قبضہ کر لے  کیونکہ وسائل پر قبضے  سے ہی سرمایہ دار کے منافع میں اضافہ ممکن ہے ۔اسی وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ  نیولبرل ازم یعنی آزاد تجارت کے اصولوں کے تحت ملکوں کےاوپر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اپنے منڈیوں کو مکمل طور پر تجارت کے لیےکھول دیں۔ جو ممالک ان  احکامات کو تسلیم کر لیتے ہیں تو آزاد تجارت کے ذریعے ان کے وسائل ،ان کی منڈی اور ان کے مزدوروں پر قبضہ کر لیا جاتا ہے ۔ ایسے ممالک جوان احکامات کو   نہیں مانتے اور اپنے آپ کو اس سامراجی جبرو تسلط سے الگ رکھنا چاہتےہیں تو پھر ان کے اوپر جنگ مسلط کر دی جاتی ہے۔

 آج سے 75 سال پہلے برطانوی راج نے مشرقی وسطیٰ میں  فلسطینی زمین پر قبضہ کر کے  زبردستی ایک ریاست قائم  کی جس کا نام اسرائیل ہے۔یہاں پر بسنےوالے تقربیاً 7.5 لاکھ فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کیا گیا۔آج امریکہ کی پشت پناہی  کے ساتھ پور ی کوشش کی جار ہی ہے کہ صیہونی اسرائیل فلسطین کومکمل طور پر ختم کر کے  پورے علاقے پر قبضہ کرلے ۔ صیہونی اسرائیل کو بنانے کا مقصد ہی مشرقی وسطیٰ  پر قبضہ کرنا تھا  تاکہ اس علاقے کے تیل اور گیس  کے بے تحاشہ  قیمتی ذخائرپر بھی قبضہ کیا جا سکے ۔ اب  دنیامیں کم ہوتے  ہوئے قدرتی  ذخائر کی وجہ سے ان  کی  اہمیت و ضرورت اور بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

               فلسطین اور بالخصوص غزہ کی پٹی پر دہشت گرد، فاشسٹ، نوآبادیاتی صیہونی اسرائیل کی بمباری اور ظلم و ستم  کسی سے چھپا ہوا  نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کا وجود اور حالیہ سر زمین فلسطین پر جاری جارحیت، قبضہ ،پیش قدمی اور فلسطینیوں کی نسل کشی فقط مذہبی یا نسلی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے  ایک نیا تجارتی و اقتصادی راہداری منصوبہ  (IMEC) ہے ۔جس کے ذریعے غزہ اور مغربی کنارے کے تیل کے ذخائر پر قبضہ مقصود ہے۔ امیک  چین کی اقتصادی راہداری “BRI” کے طرز کی ایک مقابل راہداری ہے جسکی رہنمائی  امریکہ کر رہا ہے۔  اس منصوبے میں دو راہداریاں قائم کی جائیں گی، ایک مشرقی راہداری اور دوسری شمالی راہداری۔ مشرقی راہداری بھارت کو متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب اور اسرائیل سے جوڑے گی، جبکہ شمالی راہداری مشرق وسطی کے ممالک کو یورپی ممالک  سے جوڑے گی۔  ساتھ ہی ”ابراہم ایکارڈز“ کے ذریعے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سازش شامل ہے تاکہ مشرقی وسطی ٰ اور مسلمان  ممالک کے ساتھ صیہونی اسرائیل  کےبنا کسی رکاوٹ اور مشکل کے تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کر سکے اور امریکی سامراج کو اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں آسانی ہوسکے۔ حالیہ اسرائیلی بربریت کی ایک اور وجہ اس کے علاوہ غزہ اور مغربی کنارے میں دریافت ہونے والے تیل اور گیس کے ذخائر بھی ہیں جن پر اسرائیل اور امریکہ حاوی ہونا چاہتے ہیں۔

               یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ “اسرائیل “سو ئیزکینال  کی طرح کا ایک اور کنال بین گرئین  کینا ل قائم کر نا چاہ رہا ہے جس کے لیے غزہ پٹی ایک رکاوٹ ہے۔ یوں کہہ لیں کے اسرائیل اور امریکہ فلسطین کو کرہ ارض سے مٹانے کی پوری تیاری کررہا ہے۔

               غزہ سمیت عالمی امن کے لیے ضروری ہے کہ فاشسٹ سامراج کو لگام دیا جائے جو ہتھیاروں کی تجارت،  اورمزدوروں کے استحصال پر پرپلتا  پھولتا ہے۔ اس سامراج کا مقابلہ دنیا بھر کا محنت کش طبقہ  ہی کر سکتا ہے جس کا ایک طریقہ سامراجی کمپنیوں اور ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ ہے۔ صیہونی اسرائیل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بائیکاٹ اگر حکمت عملی کے ساتھ کیا جائے تو مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اسرائیل کی نسل کش حکومت کے ساتھ تمام ریاستی، سفارتی، کاروباری اور ادارہ کی سطح پر تمام تعلقات کو ختم کرنا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔

خصوصی  بائیکاٹ : انتہائی ضروری ہے کہ ان کمپنیو ں کو ہدف بناکر ان کی مصنوعات کے ساتھ ساتھ ان کا مکمل سماجی و معاشی بائیکاٹ کیا جائے جو اسرائیل کے جرائم میں واضح اور براہ راست کردار ادا کرتی ہیں اور جن کی حمایت کے حقیقی شواہد موجود ہیں۔مثلاًمیکڈونلڈز، اور برٹش پٹرولیم، کارفور، سیمنز وغیرہ۔

عمومی بائیکاٹ :وہ کمپنیاں جو کہ براہ راست اسرائیل کے مظالم میں شریک نہیں ہیں اور نہ ہی” بظاہر” اسرائیل کی حمایت کرتی نظرآتی ہیں لیکن وہ بین الاقوامی اور کثیرالقومی کمپنیاں ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج سے جڑی ہیں، ان کمپنیوں کا بائیکاٹ بھی ہمیں کسی نا کسی طور پر کرنا ہے اور کوشش کرنی ہے کہ ان کمپنیوں سے بطور صارف یا سرمایہ کار کسی قسم کا تعلق نہ رکھا جائے۔ ۔ مثلاً   شیل پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ،  برگرکنگ وغیرہ۔

درج ذیل مصنوعات اور کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں اور ان کے بجائے مقامی مصنوعات کو ترجیح دیں تاکہ مقامی صنعت کو فروغ ملےاور ملکی معیشت مضبوط ہو سکے ۔

خوراک ، زمین اور موسمی انصاف کے لیے پاکستان عوامی کارواں

پریس ریلیز | 18 اکتوبر 2023

پاکستان کسان مزدور تحریک   اور روٹس فار ایکوٹی نے 18 اکتوبر، 2023 کو شکار پور، سندھ میں خوراک، زمین اور موسمی انصاف کے لیے ”عالمی عوامی کارواں“ کے سلسلے میں پہلا ”پاکستان عوامی کارواں منعقد کیا۔ اس حوالے سے آنے والے ہفتوں میں پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی اس ”عوامی کارواں“ کا انعقاد کیا جائے گا۔ اسی طرح کے کارواں ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ، اور دیگر خطوں میں بھی اکتوبر-نومبر 2023 کے دورانیہ میں منعقد کیے جائیں گے۔ کارواں کا یہ سلسلہ 30 نومبر سے 12 دسمبر تک دبئی، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمی تبدیلی کانفرنس کے 28 ویں اجلاس تک جاری رہے گا۔

               بالعموم پاکستان اور بالخصوص ہماری دیہی آبادیوں کے لیے ایک ایسا بہترین پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے زمین، بھوک، وسائل پر قبضہ اور موسمی بحران جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ ان کے مطالبات کی طرف دنیا بھر کی عوام، ذرائع ابلاغ (میڈیا) اور پالیسی سازوں کی توجہ مبذول کرائی جا سکتی ہے۔ دیہی آبادیوں کی تحریکیں عالمی بھوک، نقل مکانی اور ماحولیاتی و موسمی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ وہ سامراجیت یعنی ’عالمی سلطنت‘ کے امیر ترین ممالک کے مالیاتی گٹھ جوڑ اور ان کی اجارہ دار کمپنیوں کا محاسبہ کررہی ہیں۔ ہمیں ان تحریکوں کو حقیقی معنوں میں مضبوط کرنے اور ان کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کی عوام بشمول انتہائی پس ماندہ دیہی آبادیوں کے لیے اور ان کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے نتیجہ خیز پالیسی سازی تشکیل دی جا سکے۔

               کارواں کے مقررین کا کہنا تھا کہ معاشرے کے انتہائی پسماندہ اور کمزور طبقات، چھوٹے اور بے زمین کسانوں بالخصوص عورتوں کو مہنگائی، زرعی پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ عوام خصوصاً دیہی آبادیوں کو درپیش مشکلات صرف اور صرف اجارہ دار سرمایہ داروں کی بیش بہا منافع کے حصول کی لالچ کی وجہ سے اٹھانی پڑ رہی ہیں۔ دیہی آبادیاں نہ صرف خوراک اور زراعت میں آزاد تجارتی پالیسیوں کے تباہ کن اثرات بلکہ سامراجی موسمی بحران کی بھی شکار ہیں۔ 2022 میں ہونے والی شدید بارشیں اور سیلاب موسمی بحران اور اس کی تباہ کاریوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

               سامراجیت کی وجہ سے درپیش مسائل سے مقابلے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں دیہی عوامی تحریکیں ابھررہی ہیں۔ ہم انتہائی تباہ کن موسمی بحران، بھوک اور بے زمینی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے انتہائی پرعزم اور کمر بستہ ہیں۔ دوسری جانب ان مسائل کے حل کے لیے ان مسائل کی بنیادی وجوہات کو دور کرنے کے بجائے اقوام متحدہ نے ایسا مکروہ منصوبہ ترتیب دیا ہے جس سے سامراجی ممالک کی بین الاقوامی کمپنیوں کے مفادات کو ہی تقویت مل رہی ہے اور وہ خوراک، بھوک اور موسمی بحران جیسے مسائل کا مزید استحصال کرتے ہوئے اپنے لیے مزید منافع اور خوراک کے عالمی نظام پر اپنے قبضے کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔

               ایک طرف حکومتیں اور ملکی و عالمی ادارے جاری موسمی بحران کے حوالے سے ہمیشہ کمزور اور پسماندہ کسانوں کی مدد کرنے کے دعوے کرتے ہیں مگر موسمی بحران کے حل کے لیے ان کے دعوے ہمیشہ مکمل طور پر جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو سامراجی ممالک کی رکازی ایندھن کی لت، جس کی وجہ سے پوری دنیا سمیت پاکستان کی دیہی آبادیوں کو بدترین موسمی بحران کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ابھی بھی اس عذاب میں مبتلا ہیں جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسرا قابل تجدید توانائی  جیسا حل بھی اجارہ دار کمپنیوں کی وجہ سے ہماری آبادیوں کے مزید استحصال اور دیہی آبادیوں میں زمین اور پانی کے تنازعات میں اضافے کا سبب بن رہی ہے اور آبادیوں کی بے زمینی، نقل مکانی اور ان کے طرز زندگی و زراعت میں خلل پیدا کر رہی ہے۔ سرمایہ داروں کے مفاد کے لیے عوامی اور قدرتی وسائل کا استحصال کرنے والی پالیسیوں کو تشکیل دیا جارہا ہے۔

               ہم سامراجی طاقتوں کو ان کے مفادات کے حصول کے خاطر ماحول، موسم، خوراک اور ترقی جیسے ایجنڈوں کو عوام کے حقوق اور مفادات کی قیمت پر اپنے کاروباری مفاد کے لیے استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ اگر ہم حقیقی پائیدار ترقی چاہتے ہیں، بھوک کے مکمل خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں، اور کرہ ارض کو موسمی بحران سے بچانے کے لیے حقیقی اقدامات اٹھانے پر پرعزم ہیں، تو ہمیں ان منافع کے منصوبوں کو بے نقاب اور ان کی سخت مخالفت کرنا ہوگی۔

                ہمیں سامراجی لوٹ مار کو درجہ ذیل طریقوں سے ختم کرنا ہے

،دنیائے عالم سے سامراج کے تسلط کا خاتمہ

،خوراک کے نظام پر بین الاقوامی کمپنیوں کی اجارہ داری کا خاتمہ

خوراک و زراعت میں رکازی ایندھن کے استعمال کا خاتمہ۔

                ہم اپنا مستقبل درجہ ذیل طریقوں سے بدل سکتے ہیں

،عوام کے حقوق اور امنگوں کے مطابق پالیسی سازی

،زمین اور قدرتی وسائل پر عوامی اختیار

عوامی خوراک و زراعت کے نظام کے حصول کے لیے انقلابی اقدامات۔

                ہمیں اپنی تحریکوں کو مزید مضبوط اور وسیع کرنے کے لیے انتھک محنت کرنا ہوگی، دنیا بھر کے دیہی اور تمام محنت کش طبقے کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے کے لیے بنیادی اور دیرپا پالیسی اصلاحات کے لیے عملی جدوجہد پر زور دینا ہوگا۔

                                                                                         جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک

Press Release GPC- Pakistan English

Press Release GPC- Pakistan Sindhi

دیہی عوام کا مطالبہ: خوراک زمین اور موسمی انصاف

پریس ریلیز | بھوک کا عالمی دن | 16 اکتوبر 2023 

 پاکستان کسان مزدور تحریک اور روٹس فار ایکوٹی نے ایشین پیزنٹ کولیشن، پیسٹی سائیڈ ایکشن نیٹ ورک کے تعاون سے 16 اکتوبر، 2023 کو “بھوک کا عالمی دن” کے طور پر منا رہے ہیں۔ جیسے عام طور پر “خوراک کا عالمی دن ” کہہ کر منایا جاتا ہے۔  اس موقع پر سندھ کے شہر گھوٹکی میں کسانوں کے اجتماع (جلسہ) کا اہتمام کیا گیا ہے۔

               یونیسف اور ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں تقریبا 333 ملین بچے (ہر چھ بچوں میں سے ایک) شدید غربت میں زندگی گزاررہے ہیں جبکہ جنوبی ایشیا میں 62 ملین بچے شدید غربت کا شکار ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے اندازے کےمطابق دنیا بھر میں 345 ملین افراد شدید بھوک کا شکار ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے مطابق 2022 میں دنیا میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد 691 ملین سے 783 ملین کے درمیان تھی۔ اقوام متحدہ کے حالیہ بیانیہ کے مطابق اس سال مزید 745 ملین افراد شدید بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بظاہر تو ہم اکیسویں صدی میں ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ اعلی  تکنیکی ترقی بھی ہو رہی ہے لیکن دنیا بڑھتی ہوئی بھوک کا سامنا کر رہی ہے، جن میں دیہی عورتیں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں ، جو کہ نہ صرف بھوک اور غذائی کمی کا شکار ہیں بلکہ مناسب روزگار اور اپنی ذاتی زمین بالخصوص زرعی زمین کی ملکیت سے بھی محروم ہیں۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ میں پاکستان 129 ممالک میں 99ویں نمبر پر ہے، جہاں بھوک کی سطح کو سنگین قرار دیا گیا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام اور خوراک کا عالمی ادارہ  کا خیال ہے کہ 80 لاکھ سے زیادہ افراد ”خوراک کی شدید کمی“ کا سامنا کررہے ہیں۔ مندرجہ بالا صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ خوراک و زراعت میں مسلسل آزاد تجارتی پالیسیوں کا فروغ کا نتیجہ ہے۔

               اعداد و شمار کے مطابق ملک کی مجموعی زرعی زمین کا 67 فیصد صرف پانچ فیصد جاگیردار خاندانوں کے قبضے میں ہے جوکہ بڑھتی ہوئی بھوک اور ملک کے شدید مقروض ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہمارے ملک پر حکمرانی کرنے والے اشرافیہ کی قلیل تعداد نے اسے قرضوں اور مفلوک الحالی کی کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ اس وقت پاکستان مجموعی طور پر 85 ارب امریکی ڈالر کا مقروض ہے، جس کے نتیجے میں شدید معاشی بحران نے عوام کو خودکشی اور اپنے پیاروں کی جان لینے جیسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔ حکومت مختلف ذرائع سے امداد کی بھیک مانگ رہی ہے۔ اب زرعی زمین غیر ملکی اداروں کو لیز پر دی جارہی ہے۔ حکومت نے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن  کونسل  جیسے ادارے بنائے ہیں جن میں مسلح افواج کی غیر معمولی موجودگی ہے۔ (ایس آئی ایف سی) نجکاری اور سرمایہ کاری پر خاص توجہ دے رہا ہے، خاص طور پر خوراک اور زراعت کے شعبے میں اور اس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ خوراک کی بڑے پیمانے پر برآمدات ہوں گی۔ اس کے علاوہ، کارپوریٹ فارمنگ کے لیے بھی زمین لیز پر دی جارہی ہے، جس میں سرمایہ کاروں کو کسانوں، خاص طور پر چھوٹے اور بے زمین کسانوں پر ترجیح دی جارہی ہے جس کے نتیجے میں دیہی آبادیوں کیو مزید سنگین نتائج اور حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

               آئی ایم ایف کی شرائط کے نتیجے میں، ایندھن کی قیمتوں میں ہوشربہ اضافہ ہوا ہے جس سے چھوٹے کسانوں کے لیے خوراک کی پیداوار جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ کسان آبادی کا بڑھتا ہوا قرض ملک میں بے زمینی کو بڑھا رہا ہے۔

ا ن مسائل کا حل  ملک کو فروخت  کرنے میں نہیں   بلکہ خوراک اور زراعت اور قومی صنعت میں خود انحصاری پیدا کرنے میں مضمر ہے۔ کارپوریشنز اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری صرف ملک کو اس کے وسائل سے محروم کرے گی ، جبکہ ہماری زمین اور مزدوری سے بھرپور منافع حاصل کرے گی۔ اس موقع پر یہ اہم ہے کہ ہم خوراک  کی خودمختاری کے بنیاد پر  زراعت کی پالیسی کو اپنائیں، جس میں چھوٹے اور بے زمین کسانوں، خاص طور پر خواتین کو پالیسی کی   تشکیل  اور نفاذ میں مرکزی جگہ دی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زمین کی منصفانہ اور مسانایہ تقسیم کو ترجیح دے کر ملک کو قرضوں اور تنگدستی  سے نکلا جا سکتا ہے، اور ایک قومی صنعت کے قیام میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

!آئیے ہم خوراک کی خودمختاری کے لئے، موسمی  انصاف کے لئے، قومی خودمختاری کے لئے لڑیں

جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک

Press Release Hunger Day 2023 English

Press Release Hunger Day 2023 Sindhi