WORLD HUNGER DAY, OCTOBER 16, 2018

PRESS RELEASE

The Food and Agriculture Organization (FAO) celebrates the World Food Day on October 16 every year. This year FAOs slogan is “A#ZeroHunger World by 2030 is possible.” But across the world, small and landless farmers, labour organizations commemorate the day as “World Hunger Day”. Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek (PKMT), Roots for Equity, PAN AP, and various organizations have campaigned from October 1-16 to highlight the critical importance of agro-ecology and the important character of youth in promoting agroecology, and have used the theme “ Youth on the March: Building Global Community for Agroecology and Food Sovereignty” for the World Hunger Day.

To protest the rising hunger across the globe, and in Pakistan, PKMT and Roots for Equity took out a rally in Haripur, Khyber Pakhtunkwa which included small and landless farmers from many KPK districts.
According to the Altaf Hussain, National Coordinator, PKMT 60% of Pakistani population is facing food insecurity. A very large majority of the population was living under poverty, and this is the basic reason that 80% children are deprived of adequate nutrition, 44% children were suffering from malnourishment. No doubt hunger can be eradicated from Pakistan but in the current state of industrial agricultural production, where huge transnational corporations with their toxic hybrid, genetically engineered technology have got their tentacles in the system, it is NOT possible. These corporations are earning super-profits through the exploitation of small and landless farmers and this is the most critical factor in the escalating hunger, malnutrition and poverty. In Pakistan, in spite of surplus production of wheat and rice, feudalism, corporate agriculture and international trade agreements that such a large majority of the people, especially women and children suffer from hunger. Only by taking away the control of feudal lords, and corporations from our lands, our food systems and markets can eliminate hunger.
Fayaz Ahmed, Provincial Coordinator, KPK stated that the promotion of foreign investments, and an export-oriented economy, and vast infrastructural projects are resulting in the eviction of small and landless farmers; this in the face of the fact that only 11 percent of big landlords own 45% of agricultural land. The expansion of the Hattar Industrial Zone is a living example for which not only small farmers were evicted but even the labor force employed in the industries suffers from very low wages and lack of basic human rights.
Mohammad Iqbal, District Coordinator Haripur stated that the governments willingness to allow global capitalist powers control over our markets, promotion of unsustainable agriculture practices has resulted in land and food production to be a source of profit-making. All this has not only exacerbated hunger among rural communities but has also caused environmental pollution especially food pollution, and climate change. In order to get rid of poverty, hunger and joblessness, equitable land distribution must be carried out, for attaining food security and food sovereignty the control of corporations, especially agro-chemical corporations must be eliminated. All this is only possible if the farmers including women are central to decision making in rural economy, and of course agroecology is made the basis for healthy, sustainable food production systems. Only these measures will guarantee a sustainable society.
The demands put forward by PKMT and Roots for Equity include.

Released by: Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek & Roots for Equity.

International Day of Rural Womens; دیہی عورتوں کا عالمی دن

پریس ریلیز 

15، اکتوبر، 2018

اس سال ” دیہی عورتوں کے عالمی دن کو مناتے ہوئے 20 سال ہو گئے ہیں۔ ان بیس سالوں میں دیہی عورتوں پر کیا بہتر اثرات سامنے آئے ہیں۔ افسوس ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر بھوک بڑھتی جا رہی ہے۔ 2016 میں 801 ملین لوگ بھوکے تھے اور صرف ایک سال میں ان کی تعداد 821 ملین ہو گئی ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر یہ ایک بھیانک سچ ہے کہ ان لوگوں میں 60 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔ یہ حالات یقیناًان طاقتور کرداروں کی وجہ سے ہے جو زرعی پیداواری نظام پر قابض ہیں۔ ان میں جاگیرداری، سرمایہ داری اور پدرشاہی طاقتیں سب سے آگے ہیں۔ دنیا میں کیمیائی صنعتی زراعت نے نہایت تباہ کاری برپا کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) اور روٹس فار ایکوٹی دیہی عورتوں کا عالمی دن پیسٹی سائیڈ ایکشن نیٹورک (پین اے پی) اور دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ مل کر یکم تا 16 اکتوبر نوجوانوں کی قیادت میں زرعی ماحولیات اور خوراک کی خودمختاری کے لیے جدوجہد ’’یوتھ آن دی مارچ: بلڈنگ گلوبل کمیونٹی فار ایگروایکولوجی اینڈ فوڈ سورنٹی!‘‘ کے عنوان سے منارہی ہے۔

پی کے ایم ٹی اور روٹس فار ایکوٹی نے دیہی عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر گھوٹکی، سندھ میں ایک جلسے کا اہتمام کیا جس میں پی کے ایم ٹی کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور عورتوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پی کے ایم ٹی، گھوٹکی کی رکن زریت نے کہا کہ پاکستان کی تقریباً دو تہائی آبادی دیہات میں رہتی ہے جہاں زرعی شعبہ میں کام کرنے والے مزدورں میں عورتوں کا تناسب 74 فیصد ہے جو کپاس، گنا، گندم اور چاول جیسی اہم فصلوں کی کٹائی، چنائی، بیجائی اور دیگر کام سرانجام دیتی ہیں۔ روٹس فار ایکوٹی کی تحقیق کے مطابق سندھ اور پنجاب میں کپاس چننے والی عورتیں 200 سے 300 روپے فی من اور دیگر فصلوں پر 100 سے 150 روپے یومیہ اجرت پر آٹھ سے دس گھنٹے سخت سردی اور گرمی میں ایسے ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں جہاں انہیں ہر قدم پر صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2013 میں جاری ہونے والی آخری قومی غذائی سروے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں50.4 فیصد عورتیں خون کی کمی، 41.3 فیصد وٹامن اے ، 66.8 فیصد وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی 2018 میں صنفی امتیاز پر جاری ہونے والی رپورٹ سے سندھ میں عورتوں میں غذائی کمی کی تشویشناک صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سندھ میں دیہی عورتوں میں غذائی کمی کا تناسب 40.6 فیصد ہے جبکہ افریقی ملک نائیجیریا کی دیہی عورتوں میں غذائی کمی کا تناسب 18.9 فیصد ہے۔

پی کے ایم ٹی سندھ کے صوبائی رابطہ کار علی نواز جلبانی نے کہا کہ نیولبرل پالیسیوں کے تحت ہائبرڈ اور جینیاتی فصلوں پر مشتمل غیر پائیدار کیمیائی طریقہ پیداوار کا فروغ ناصرف کسانوں کو منڈی کا محتاج بنا رہا ہے بلکہ بیجائی سے چنائی یا کٹائی کے مراحل تک سب سے زیادہ فصلوں پر کام کرنے والی دیہی عورتوں کی زندگیوں کو بھی شدید خطرات میں مبتلا کررہا ہے۔ خصوصاً کپاس کی فصل پر کام کرنے والی عورتیں خارش، دمہ اور دیگر جلدی بیماریوں کا شکار جاتی ہیں جس پر بیماریوں اور کیڑوں سے بچاؤ کے لیے بھاری مقدار میں زہریلے اسپرے کیے جاتے ہیں جو شدید ماحولیاتی آلودگی کا سبب بھی ہے۔ کپڑے برآمدی صنعت جو زرمبادلہ کے حصول کا اہم ترین زریعہ ہے، ان دیہی عورتوں کی مرہون منت ہے جن کی بہبود کے لیے سرکای سطح پر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔

پی کے ایم ٹی کے سابق مرکزی رابطہ کار راجہ مجیب کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ملک سے بھوک ،غربت، غذائی کمی، صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ زمین، بیج اور پانی جیسے اہم پیداواری وسائل پر کسانوں کا اختیار ہو ناکہ جاگیردار، سرمایہ دار اور ان کی زرعی کمپنیوں کا۔ پی کے ایم ٹی دیہی عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر مطالبہ کرتی ہے کہ خوراک کی خودمختاری کے حصول کے لیے زمین کسان مرد و عورتوں میں منصفانہ اور مساویانہ بنیادوں پر تقسیم کی جائے اور پائیدار زرعی ماحولیاتی نظام (ایگرو ایکالوجی) کو فروغ دیا جائے۔
جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک