PKMT Criticizes Government Policies amid Rising Poverty and Economic Hardships

By Adeel Alvi | Regional Times of Sindh | September 6, 2023

Shikarpur: The Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek (PKMT) staged a protest demonstration in Shikarpur on Tuesday, decrying the prevalent inflation and dire economic conditions in the country. Speaking at the event, PKMT leaders Hakim Gul and others vehemently criticized the policies of the current government. They highlighted the worsening poverty and unemployment crisis gripping the nation.

The PKMT leader expressed deep concern over the influence exerted by international financial institutions like the IMF, asserting that their policies have resulted in severe hardships, particularly for rural and working-class communities. Soaring prices of essential commodities, including electricity, petroleum gas and food items, have placed immense burdens on the common people, particularly those from rural and working-class backgrounds. Factory closures have led to widespread joblessness, further exacerbating economic difficulties, rising poverty, and inflation.

Amid this backdrop, the speakers underscored the intensification of the feudal system and exploitation of rural and working-class women, contributing to economic hardships, bonded labor, food scarcity, and poverty. Persistent power outages and energy shortages have become unbearable for the populace.

Furthermore, the speakers criticized the misuse of national resources, including free electricity, gas, and unauthorized expenditures, which have placed undue financial burdens on the hard-working citizens of Pakistan.

The PKMT leaders emphasized that the combination of poverty, unemployment, and inflation has significantly disrupted the lives of ordinary citizens. The soaring price of essential goods, especially electricity, gas and petroleum, have disproportionately affected the working class population. They asserted that the current government’s economic and social policies have exacerbated societal issues and crime.

To address this crisis, the speakers called for immediate and decisive action. The urged the state to implement fair and equitable distribution of land and resources among rural and working-class populations. They also called for urgent tax reforms to ensure that wealthy landowners and multinational corporations pay their fair share of taxes.

The PKMT demanded that the government prioritize the interests of the working class and rural citizens and take concrete steps to alleviate their economic hardships.

https://regionaltimes.com/singlepaper

پریس ریلیز | سامراجی معاشی استحصال؛ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، عدم تحفظ

پریس ریلیز  4 ستمبر 2023
پاکستان کسان مزدور تحریک ملک کی حالیہ معاشی بدحالی پر سراپا احتجاج ہے۔ پاکستان کسان مزدور تحریک کے
چھوٹے اور بے زمین کسان ممبران آج 4 ستمبر، 2023 کو یومِ احتجاج مناتے ہوئے پورے ملک میں اپنی احتجاجی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں شکارپور، خیرپور، گھوٹکی، ہری پور، دیر، مانسہرہ، ساہیوال اور راجن پور میں احتجاجی مظاہرے اور پشاور، ملتان اور کراچی میں پریس کانفرنس کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر اضلاع میں احتجاج ریکارڈ کروایا جا رہا ہے۔
ہم اس ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان و مزدور عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی نظام کی پالیسیوں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ڈبلیو ٹی او، کوڈیکس ایلیمنٹریس، ایس پی ایس کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے آج ہمارے محنت کش خاص کر چھوٹے اور بے زمین کسان اور صنعتی مزدور شدید بھوک، غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ آج کسان کھیتی باڑی کو چھوڑنے پر مجبور ہوچکا ہے، کارخانے بند ہو رہے ہیں اور مزدوروں کی بہت بڑی تعداد بے روزگاری سے دوچار ہوچکی ہے۔ ان حالات میں پدر شاہی نظام کے اثر تلے کسان و مزدور عورت پر معاشی بدحالی، بھوک، غذائی کمی اور غربت کے ساتھ ساتھ سماجی بربریت و استحصال دوہرا ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے نتیجے میں حالیہ سامراجی اور سرمایہ دارانہ غلبہ ملک میں بجلی، تیل، گیس اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں اور محنت کش طبقہ کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں۔ بھوک، افلاس، غربت اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے جبکہ دوسری جانب اس ملک کی اشرافیہ ریاستی مراعات کے نام پر مفت بجلی، تیل، گیس اور اربوں روپے کے ناجائز اخراجات کا بوجھ قومی خزانے پر ڈال رہی ہے، جس کا خمیازہ محنت کش عوام اپنا پیٹ کاٹ کر بھوک اور ننگ کی صورت میں ادا کر رہا ہے۔ ہم حکومت کی موجودہ معاشی بدحالی کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے بلوں کے نرخوں کو صراحاً مسترد کرتے ہیں اور ان بلوں کی ادائیگی کے لیے بھونڈے، غیر تسلی بخش اور کھوکھلی تجاویز کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ عوامی ضروریات پر ٹیکس عائد کرنے کے بجائے ہم حکومت سے 50 ایکڑ سے زائد زمین کی ملکیت والے زمینداروں اور جاگیرداروں پر زرعی ٹیکس کے ساتھ ساتھ رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

Continue reading

بچاؤ دیہی انمول اثاثے؛ مہم برائے مال مویشی و دودھ

پریس ریلیز  22 جون 2023
پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) نے 8 مارچ،  2023 کو ساہیوال میں ”بچاؤ دیہی انمول اثاثے: دودھ اور مال مویشی شعبہ کے کارپوریٹ قبضے کے خلاف مہم“ کا آغاز کیا تھا۔ پی کے ایم ٹی کے مطابق دودھ اور مال مویشی کے شعبے میں کمپنیوں کے غلبہ کو ممکن بنانے کے لیے خالص خوراک کے قوانین کے نفاذ کو ہتھیار کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ مختلف صوبوں بالخصوص پنجاب کی پیور فوڈ اتھارٹیز بظاہر اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ خالص قدرتی کھلا دودھ آلودہ ہے، لہذا کسان سمیت دودھ کی تمام تجارتی پیداوار اور فروخت کرنے والے اداروں کو پنجاب فوڈ ریگولیشنز 2018 کم از کم پیسچرائزیشن گائیڈ لائنز اور اسٹینڈرڈز پر عمل کرنا ہوگا اور پیور فوڈ اتھارٹی میں اپنا اندراج کرانا ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دودھ پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے اور ہم دودھ کی پیداوار میں تقریباً خود مختار ہیں۔ اگرچہ کسانوں کی اکثریت کے پاس زمین نہیں ہے، لیکن ان کے پاس مویشی ہیں اور مویشیوں کی پیداوار و فروخت کے ساتھ ساتھ دودھ اور دودھ سے تیار کردہ دیگر مصنوعات پر بھی کافی حد تک اختیار ہے۔ دیہی علاقوں میں 80 فیصد دودھ چھوٹے پیمانے پر پیدا ہوتا ہے اور 97 فیصد دودھ تازہ کھلے اور بقیہ صرف تین فیصد ڈبہ بند شکل میں منڈی میں بکتا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے کہ جس کے پیچھے عالمی تجارتی ادارہ (ڈبلیو ٹی او) کی ایماء پر خالص خوراک کے قوانین کو کسانوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔
دودھ اور مال مویشی کے شعبے کے تناظر میں امریکہ، جرمنی، فرانس، آسٹریلیا اور دیگر سرمایہ دار صنعتی ممالک کی طاقتور حکومتیں اپنی زرعی پالیسیوں مثلاً یورپی یونین (ای یو) کی (سی اے پی) اور یو ایس فارم بل پالیسی کے ذریعے اپنے کسانوں کو اربوں ڈالر اور یورو کی امداد فراہم کرتی ہیں۔ 2023-2027 کی سی اے پی پالیسی میں، یورپی یونین نے اپنے کسانوں کے لیے 307 بلین یورو کی مدد فراہم کی ہے۔ اسی طرح فارم بل 2018-2023 کے ذریعہ امریکہ اپنے کسانوں کو 428 ارب ڈالر کی مدد فراہم کررہا ہے۔ دودھ کے شعبہ کے لیے خصوصی سبسڈی فراہم کی جاتی ہے تاکہ دودھ کی اضافی پیداوار) کے لیے اسٹوریج اور اضافی ڈیری مصنوعات کو سرکاری سطح پر خریدنے کے لیے مراعات دی جاتی ہے۔ چونکہ کھپت پیداوار سے کم ہے لہذا کمپنیاں دودھ کو خشک دودھ یا اسکیمڈ دودھ میں تبدیل کرتی ہیں اور پھر ان مصنوعات کے لیے منڈی ڈھونڈتی ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ، یورپی یونین اور آسٹریلیا کی کمپنیاں گائے اور بھینس کی بوائن جینیات (زیادہ پیداوار والے مویشیوں کی افزائش) میں بھی مہارت رکھتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے زندہ مویشیوں کے لیے بھی منڈیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دودھ کی صنعتی طرز پیداوار ماحول کے لیے تباہ کن ہے اور گلوبل وارمنگ کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ اس لیے پی کے ایم ٹی ہمارے دیہی اثاثوں پر سامراجی کارپوریٹ قبضے کی شدید مخالفت کرتی ہے۔
انہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کہنے پر ڈبلیو ٹی او اور دیگر سرمایہ کاری کے معاہدے کیے جاتے ہیں تاکہ پاکستان جیسے ممالک کی دودھ اور مال مویشی منڈیوں پر قبضہ کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر ورلڈ بینک کے ماتحت ادارے انٹرنیشنل فنانشل کارپوریشن نے نیدر لینڈ کی دودھ کی سب سے بڑی کمپنی فریز لینڈ کیمپینا کو 145 ملین ڈالر فراہم کیے تاکہ پاکستان کی سب سے بڑی دودھ کی کمپنی اینگرو فوڈز کا 51 فیصد حصص حاصل کرکے پاکستانی ڈیری انڈسٹری پر اجارہ داری قائم کی جاسکے۔
نیسلے اور اس جیسی دیگر بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہماری منڈیوں پر قابض ہونے کے لیے دودھ کی پیداوار اور منڈیوں پر چھوٹے کسانوں کا اختیار ختم کرنا ہوگا۔ ڈبلیو ٹی او کے معاہدے مثلاً اے او اے، ٹرپس، ایس پی ایس اور ٹی بی ٹی کا مقصد پاکستان جیسے ممالک کی منڈیوں پر زبردستی قبضہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
دودھ اور مال مویشی شعبہ پر کارپوریٹ کنٹرول کے خلاف پی کے ایم ٹی کی سہماہی مہم کی اختتامی تقریب آج 22 جون کو منعقد ہوئی، جس دن ایک بہادر کسان عورت مائی بختاور کو اپنی برادری کی اناج کے قبضے کے خلاف مزاہمت کرتے ہوئے جاگیرداروں نے قتل کردیا تھا۔ مہم کی اختتامی تقریب میں ہم اپنے دودھ اور مال مویشی شعبہ پر کمپنیوں کے قبضے کے خلاف لڑنے اور زرعی زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کے لیے عزم کا اعیادہ کرتے ہیں۔ پمفلٹ تقسیم کے ذریعے ہم چاروں صوبوں کے 57 اضلاع اور اسلام آباد میں پانچ لاکھ سے زائد پاکستانی شہریوں کو خالص خوراک کے قوانین کے مذموم مقاصد سے آگاہ کیا گیا۔ متعدد ٹی وی ٹاک شوز میں حصہ لیا، ریڈیو پروگرام کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا گیا۔
ہمارا مقصد ملک کے کونے کونے تک پہنچ کر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ڈبہ بند دودھ اور دودھ سے بنے دیگر مصنوعات کا بائیکاٹ کا مطالبہ کرنا ہے، ہماری دیہی آبادیوں کی اکثریت اس شعبہ سے اپنا روزگار حاصل کرتی ہے۔ معاشی طور پر پاکستان پہلے ہی 126.3 بلین امریکی ڈالر (تقریباً 337 کھرب روپے) کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور اس قرض کے بوجھ تلے عوام فاقوں پر مجبور ہے، ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی پیداواری صنعت کو پائیدار اور مضبوط بنیاد پر کھڑا کریں خصوصاً اپنے قیمتی ماحولیات سے ہم آہنگ زرعی، مال مویشی اور دودھ کی پیداواری نظام کا ناصرف تحفظ کریں بلکہ اس کو بڑھائیں۔ تاکہ وقت کی ضرورت کے تحت سامراجی تسلط
اور ماحولیاتی تباہی سے اپنا بچاؤ کیا جاسکے۔
!۔ ڈبہ بند دودھ کا بائیکاٹ
!۔ دودھ اور مال مویشی شعبے پر کمپنیوں کا قبضہ نامنظور
!۔ کسان عورتوں کے حقوق کے لیے کھڑے ہوں
!۔ چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے حقوق کے لیے کھڑے ہوں
۔ دودھ کی خود مختاری کے لیے کھڑے ہوں!۔زمین کے منصفانہ اور مساویانہ بٹوارے کے لیے کھڑے ہوں
!۔ موسمی انصاف کے لیے کھڑے ہوں
!۔ خوراک کی خودمختاری کے لیے کھڑے ہوں
جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک

#SaveOurInvaluableRuralAssets | Role Of Women In livestock And Dairy Production In Pakistan? | Agri Business |

Watch the full episode of Agri Business on June 3, 2023, a Tv program on Rohi Tv as part of our Save Our Invaluable Rural Assets campaign against corporate control on Pakistan’s dairy and Livestock Sector. #SaveOurInvaluableRuralAssets

 

#SaveOurInvaluableRuralAssets زراعت کے شعبے میں مال مویشی کی اہمیت کیا ہے؟؟ | Agri Business l

مہم برائے مال مویشی دودھ : بچاؤ دیہی انمول اثاثے – ریڈیو پیغامات

پاکستان کسان مزدور تحریک نے”  بچاؤ دیہی انمول اثاثے”  پاکستان میں دودھ اور مال مویشی شعبہ پرکمپینوں کے قبضہ کے خلاف مہم کا آغاز کیا ہے۔ اس مہم کے تحت  پی کے ایم ٹی  مست ایف ایم 103 ملتان سے 3 ریڈیو پیغامات نشر کر رہی ہے۔ پی کے ایم ٹی قیمتی حیاتیاتی تنوع پرکمپنیوں کے قبضہ کے خلاف لئے مہم چلا رہی ہے۔ فی الحال، چھوٹے اور بے زمین کسان قدرتی، خالص، تازہ دودھ کی پیدا کرنے والے  گروہ اور  سپلائر ہیں۔لیکن اب  اس کا مقابلہ میں مغربی ممالک کی سامراجی کارپوریٹ پالیسیوں کے تحت کیا جا رہا ہے۔ سبز انقلاب کے بعد عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) اور اس کے معاہدوں مثلاً  ٹرئیپس اور اب ایس پی ایس اور ٹی بی ٹی معاہدے  کسانوں پر تباہ کن اثرات مرتب  کر رہے ہیں۔

پاکستان میں دو زرعی وسائل بہت اہمیت کے حامل ہیں  ایک گندم اور دوسرا مال مویشی۔  یہ  شعبہ چھوٹے اور بے زمین کسان اور خاص طور پر کسان عورتوں کے لیے براہ   راست آمدنی کا  ذریعہ ہے۔ مال مویشی کسانوں کے لیے بینک اکاؤنٹ جیسا درجہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ روزمرہ کے گھریلو اخراجات کیلئے بھی اہم وسیلہ تصور کیے جاتے ہیں ۔ مگر اب ملٹی نیشنل کمپنیاں چھوٹے کسانوں کے اس اثاثہ پر قبضہ کے در پر ہیں کیونکہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ڈبوں میں بند غیر محفوظ  دودھ کے کاروبار کو فروغ دیکر چھوٹے اور بے زمین کسانوں سے ان کا روزگار چھیننا چاہتی ہیں۔

آج کل اشتہاروں کے ذریعے تازہ، کھلے  اور قدرتی دودھ کے مضر صحت ہونے کا پرچار کیا جارہا ہے۔ جبکہ یہی دودھ صدیوں سے ہماری صحت اور روزگار  کا ضامن رہا ہے۔ ضرورت سرکاری سطح  پر اسی دودھ کے نظام  کو بہتر کرنے کی ہے، سرکار کا مال مویشی اور دودھ کے شعبے میں   کمپنیوں کی اجارہ داری قائم کرنے اور کسانوں کا روزگار چھیننے میں کمپنیوں کا سہولت کار بننے کی نہیں۔ حکومت پاکستان کو خوراک کی خود مختاری کے منصوبے پر عمل پیرا ہونا  چاہیے نہ کہ اسے گروی رکھنے پر۔

پاکستان دودھ کی پیداوار میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے اور تقریبا 94 فیصد چھوٹے اور بے زمین کسان اس شعبہ سے جڑے ہوئے ہیں مگر اب مال مویشی اور دودھ سے جڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے روزگار کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ عوام دشمن سامراجی پالیسیوں کے تحت ورلڈ بینک جیسے ادارے مالی معاونت فراہم کرتے ہیں تاکہ ملکوں کی اقتصادیات پر کمپنیوں کا قبضہ ہوسکے۔لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم سب اپنے ملک کے بیش بہا اثاثہ جات  مال مویشی، بیج، زرعی اجناس، دودھ اور دودھ سے حاصل صحت مند اور متوازن خوراک کے تحفظ کےلئے ، کسانوں کے حق کےلئے مل کر آواز اٹھائیں۔