پریس ریلیز | بھوک کا عالمی دن | 16 اکتوبر 2023
پاکستان کسان مزدور تحریک اور روٹس فار ایکوٹی نے ایشین پیزنٹ کولیشن، پیسٹی سائیڈ ایکشن نیٹ ورک کے تعاون سے 16 اکتوبر، 2023 کو “بھوک کا عالمی دن” کے طور پر منا رہے ہیں۔ جیسے عام طور پر “خوراک کا عالمی دن ” کہہ کر منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر سندھ کے شہر گھوٹکی میں کسانوں کے اجتماع (جلسہ) کا اہتمام کیا گیا ہے۔
یونیسف اور ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں تقریبا 333 ملین بچے (ہر چھ بچوں میں سے ایک) شدید غربت میں زندگی گزاررہے ہیں جبکہ جنوبی ایشیا میں 62 ملین بچے شدید غربت کا شکار ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے اندازے کےمطابق دنیا بھر میں 345 ملین افراد شدید بھوک کا شکار ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے مطابق 2022 میں دنیا میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد 691 ملین سے 783 ملین کے درمیان تھی۔ اقوام متحدہ کے حالیہ بیانیہ کے مطابق اس سال مزید 745 ملین افراد شدید بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بظاہر تو ہم اکیسویں صدی میں ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ اعلی تکنیکی ترقی بھی ہو رہی ہے لیکن دنیا بڑھتی ہوئی بھوک کا سامنا کر رہی ہے، جن میں دیہی عورتیں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں ، جو کہ نہ صرف بھوک اور غذائی کمی کا شکار ہیں بلکہ مناسب روزگار اور اپنی ذاتی زمین بالخصوص زرعی زمین کی ملکیت سے بھی محروم ہیں۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ میں پاکستان 129 ممالک میں 99ویں نمبر پر ہے، جہاں بھوک کی سطح کو سنگین قرار دیا گیا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام اور خوراک کا عالمی ادارہ کا خیال ہے کہ 80 لاکھ سے زیادہ افراد ”خوراک کی شدید کمی“ کا سامنا کررہے ہیں۔ مندرجہ بالا صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ خوراک و زراعت میں مسلسل آزاد تجارتی پالیسیوں کا فروغ کا نتیجہ ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ملک کی مجموعی زرعی زمین کا 67 فیصد صرف پانچ فیصد جاگیردار خاندانوں کے قبضے میں ہے جوکہ بڑھتی ہوئی بھوک اور ملک کے شدید مقروض ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہمارے ملک پر حکمرانی کرنے والے اشرافیہ کی قلیل تعداد نے اسے قرضوں اور مفلوک الحالی کی کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ اس وقت پاکستان مجموعی طور پر 85 ارب امریکی ڈالر کا مقروض ہے، جس کے نتیجے میں شدید معاشی بحران نے عوام کو خودکشی اور اپنے پیاروں کی جان لینے جیسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔ حکومت مختلف ذرائع سے امداد کی بھیک مانگ رہی ہے۔ اب زرعی زمین غیر ملکی اداروں کو لیز پر دی جارہی ہے۔ حکومت نے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل جیسے ادارے بنائے ہیں جن میں مسلح افواج کی غیر معمولی موجودگی ہے۔ (ایس آئی ایف سی) نجکاری اور سرمایہ کاری پر خاص توجہ دے رہا ہے، خاص طور پر خوراک اور زراعت کے شعبے میں اور اس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ خوراک کی بڑے پیمانے پر برآمدات ہوں گی۔ اس کے علاوہ، کارپوریٹ فارمنگ کے لیے بھی زمین لیز پر دی جارہی ہے، جس میں سرمایہ کاروں کو کسانوں، خاص طور پر چھوٹے اور بے زمین کسانوں پر ترجیح دی جارہی ہے جس کے نتیجے میں دیہی آبادیوں کیو مزید سنگین نتائج اور حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آئی ایم ایف کی شرائط کے نتیجے میں، ایندھن کی قیمتوں میں ہوشربہ اضافہ ہوا ہے جس سے چھوٹے کسانوں کے لیے خوراک کی پیداوار جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ کسان آبادی کا بڑھتا ہوا قرض ملک میں بے زمینی کو بڑھا رہا ہے۔
ا ن مسائل کا حل ملک کو فروخت کرنے میں نہیں بلکہ خوراک اور زراعت اور قومی صنعت میں خود انحصاری پیدا کرنے میں مضمر ہے۔ کارپوریشنز اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری صرف ملک کو اس کے وسائل سے محروم کرے گی ، جبکہ ہماری زمین اور مزدوری سے بھرپور منافع حاصل کرے گی۔ اس موقع پر یہ اہم ہے کہ ہم خوراک کی خودمختاری کے بنیاد پر زراعت کی پالیسی کو اپنائیں، جس میں چھوٹے اور بے زمین کسانوں، خاص طور پر خواتین کو پالیسی کی تشکیل اور نفاذ میں مرکزی جگہ دی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زمین کی منصفانہ اور مسانایہ تقسیم کو ترجیح دے کر ملک کو قرضوں اور تنگدستی سے نکلا جا سکتا ہے، اور ایک قومی صنعت کے قیام میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
!آئیے ہم خوراک کی خودمختاری کے لئے، موسمی انصاف کے لئے، قومی خودمختاری کے لئے لڑیں
جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک