پریس ریلیز | دیہی عورتوں کا عالمی دن | 15 اکتوبر 2023
پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی ) اور روٹس فور ایکوٹی دیہی عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر عالمی سامراجی پالیسیوں کی جانب اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان پر سوال اٹھاتی ہے۔ ایک طرف تو یوں لگتا ہے کہ نام نہاد ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دنیا بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے خاص طور پر زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے ریاستی سطح پر پالیسی سازی کی جارہی ہے اور بڑھ چڑھ کر حکمت عملیاں ترتیب دی جارہیں ہیں۔ دوسری جانب زراعت کے شعبے سے جڑی آبادیوں میں بھوک اور غذائی کمی بڑھتی جارہی ہےبالخصوص عورتیں اور بچے اس خوراک کی کمی کے شدید متاثرین میں سے ہیں۔ دنیا میں بڑھتی ہوئی بھوک اور غذائی کمی ماضی کے سبز انقلاب کی حقیقت اور جدید مشینری اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہونے والی صنعتی زراعت کی اصلیت اور اس کے پیچھے چھپے سامراجیت کے زمین و خوراک پر قبضے کی اہداف اور جھوٹ کو عیاں کرتی ہے۔
یونیسف اور ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں تقریبا 333 ملین بچے (ہر چھ بچوں میں سے ایک) شدید غربت میں زندگی گزاررہے ہیں جبکہ جنوبی ایشیا میں 62 ملین بچے شدید غربت کا شکار ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے اندازے کےمطابق دنیا بھر میں 345 ملین افراد شدید بھوک کا شکار ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے مطابق 2022 میں دنیا میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد 691 ملین سے 783 ملین کے درمیان تھی۔ اقوام متحدہ کے حالیہ بیانیہ کے مطابق اس سال مزید 745 ملین افراد شدید بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بظاہر تو ہم اکیسویں صدی میں ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ اعلی تکنیکی ترقی بھی ہو رہی ہے لیکن دنیا بڑھتی ہوئی بھوک کا سامنا کر رہی ہے، جن میں دیہی عورتیں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں ، جو کہ نہ صرف بھوک اور غذائی کمی کا شکار ہیں بلکہ مناسب روزگار اور اپنی ذاتی زمین بالخصوص زرعی زمین کی ملکیت سے بھی محروم ہیں۔
خاص طور پر پاکستان میں کسان مزدور عورتیں زرعی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں مگر تقریباً سب ہی بے زمین ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ زمین و زراعت میں کسی بھی قسم کی فیصلہ سازی کا اختیار نہیں رکھتیں۔ بیج کی بوائی سے لے کر فصل کی کٹائی تک ، مال مویشیوں کا چارہ پانی کا خیال رکھنے سے لیکر دودھ و دھنے اور ان کی دیکھ بھال کرنے تک، عورتوں کی اولین ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ تمام فصلیں ، خاص طور پر گندم کی کٹائی جو کہ کمرتوڑ محنت طلب کرتی ہے، اور کپاس کی چنائی جو کہ ہاتھ پیروں کے زخمی ہو جانے کا سبب بنتی ہے اور سبزیاں جن میں زہریلی ادویات کے استعمال کی وجہ سے کئی طرح کی جلدی اور دیگر بیماریاں ہو جاتی ہیں، عورت ہی کے بل بوتے سرانجام پاتی ہیں۔ ان سب کے باجود بھی یہی طبقہ سب سے زیادہ پس ماندہ اور ہر طرح کے ظلم کا شکار ہے۔
سامراج نیولبرل ازم پالیسیوں کو ہماری معاشی بدحالی کے حل کے طور پر پیش کرتا ہے، لیکن درحقیقت یہی معاشی غارت گری کی اصل بنیاد ہے۔نوآبادیات سے لے کر آج تک ، زمین کے حقیقی کاشتکاروں کو زبردستی ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیااور ان جاگیرداروں کو مسلط کر کے سامراج کے تسلط اور اس کی حاکمیت کو قائم اور برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جس کا مقصد خوراک کے نظام پر قبضہ جما کر بین الاقوامی کمپنیوں کے منافع کے حصول کو یقینی بنایا ہے۔
منافع خور اور منافع کے ہوس میں کسی بھی حدتک جانے والا یہ سامراجی پیداواری نظام جو کہ رکازی ایندھن (فوسل فیول) کے زور پر کھڑا ہواہے، موسمی بحران کا ذمہ دار ہے۔ لیکن سامراجی طاقیتں غیرپائیدار پیداوار اور کھپت کو منافع کی لالچ میں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جس کا خمیازہ کسان مزدور بالخصوص کسان مزدور عورتون کو اپنی زمین گھر، کھیت، فصلوں اور مال مایشیوں کے نقصانات کی شکل میں بھگتنا پڑرہا ہے۔ نہ صرف موسمی بحران اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی ، بلکہ قرضوں کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے جس کا کوئی تعلق ہم مزدور اور کسان عوام سے نہیں ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جانب سے سونپی پالیسیاں (خاص طور پر ملکی اشرافیہ کے، لیے گئے قرضہ جات کی فراہمی کے عوض اور اس قرضہ کوواپس کرنے کی حکمت عملی کے طور پر ، اخراجات کی کمی کے نام پر دی جانی والی سبسڈیاں اور ملکی آمدنی بڑھانے کے نام پر محصولات میں بے تحاشہ اضافہ) عوام کو بھوک و افلاس، غربت میں دھکیلنے اورزرعی پیداوار کے نظام کو مزید مفلوج کر رہی ہیں۔
پاکستان کسان مزدور تحریک حکومت سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اناج کی برآمد کے لیے ملکی زمین کو لیز پر دینے کے بجائے سرمایہ دار سامراجی ممالک کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے ہر بے جابات تسلیم کرنے کے بجائے قرضوں کو منسوخی کے ساتھ ساتھ ہر اس پالیسی کو ماننے سے انکار کردیں جو اس ملک کی عوام خاص طورپر دیہی آبادیوں، کسان مزدور عورتوں کے مفاد کے خلاف ہو۔ پی کے ایم ٹی یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ کسانوں ، خاص طور پر زرعی مزدور عورتوں میں زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم ، محفوظ اور غذائیت سے بھر پور خوراک کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ مختصر یہ کہ ہم ایک ایسی پالیسی کا مطالبہ کرتے ہیں جو خوراک کی خود مختاری ، موسمی انصاف، معاشی اور سماجی انصاف اور عوامی احتساب کی حامل ہو۔
دیہی کسان مزدور عورت مطالبہ کرتی ہے: خوراک کی خودمختاری کا، زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کا، موسمی انصاف کا؛
دیہی کسان مزدور عورت رد کرتی ہے: پدرشاہی نظام کا ، جاگیرداری نظام کا، سرمایہ داری نظام کا، سامراجیت کا۔ عالمیگریت اور نیولبرل ازم کی بنیاد پر بنائے جانے والی ہر پالیسی کا، ان پالیسیوں کو بنانے اور زبردستی لاگو کرنے والے ہر ملکی ، غیرملکی ، قومی، کثیرالقومی اور بین الاقوامی ادارے کا اور ساتھ ہی ساتھ بغاوت اور نجات کا اعلان کرتی ہے۔
جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک