سامراجی ہتھکنڈے اور موجودہ معاشی بحران: مزدور تحریک کے امکانات

پریس ریلیز؛ 22 فروری 2022

دنیا بھر میں یکم مئی، 1886 میں شکاگو کے مزدوروں کی جدوجہد کی یاد میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) اور روٹس فار ایکوٹی نے ماہ رمضان کے پیش نظر اس سال یکم مئی کا جلسہ 22 مئی، 2022 کو حطار انڈسٹریل اسٹیٹ ہری پور میں منعقد کیا۔ جس میں بڑی تعداد میں مزدور کسان رہنماؤں اور کسان دوست ساتھیوں نے شرکت کی۔

پاکستان میں جاری معاشی بحران کا سبب کورونا وبا نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو کہ بحرانوں میں بھی اپنے منافع کے حصول کو اولیت دیتا ہے، کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شدید معاشی اور سماجی مسائل میں پسے ہوئے مزدور طبقہ کو عالمی مالیاتی اداروں خصوصاً آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس طبقے کے لیے صحت، تعلیم اور بہتر روزگار کا حصول پہلے ہی جان جوکھوں کا کام تھا مگر بڑھتی ہوئی مہنگائی جس میں کھانے پینے کی ضروری اشیاء چینی، آٹا، چینی، دودھ، مرغی، سبزی، گوشت، آلو، ٹماٹر، تیل سمیت دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہوشروبا اضافہ کے ساتھ ساتھ پیٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے پسے ہوئے طبقات کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا اندازہ اس بات سے دیکھا جاسکتا ہے کہ اپریل 2022 میں گزشتہ 11 سالوں میں سب سے زیادہ مہنگائی 13.37 فیصد نوٹ کی گئی۔ جبکہ بے روزگاری میں مالی سال 2019-2020 میں بے روزگاری کے شکار 5.80 ملین افراد سے بڑھ کر مالی سال 2020-2021 میں 6.65 ملین افراد ہوگئے۔
بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کے خاتمہ کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی اقدام تو کجا حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے ملک دشمن اور عوام دشمن معاہدہ کے تحت مزید معاشی پستی کی جانب گامزن ہے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ملکی قرضوں میں مزید اضافہ کرتی جارہی ہے۔ حکومت کی ترجیح عوامی مسائل کے حل کے بجائے آئی ایم ایف کی ایماء پر اسٹیٹ بینک کو حکومتی تحویل سے آزاد کرنے کے قانون کا اجراء جیسی ملک و عوام دشمن پالیسیوں کے ذریعہ پاکستان میں نوآبادیاتی شکنجے کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ آزاد تجارتی پالیسی کے تحت سرکاری شعبہ میں چلنے والی صنعتوں اور اداروں کو نجی شعبے میں دے دیا گیا جس سے بڑی تعداد میں مزدوروں کی بے روزگاری میں اضافہ اور سرکاری سہولیات میں کمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان حاصل کردہ قرضے کا بہت بڑا حصہ صرف سود کی مد میں ادا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 2021 میں پاکستان نے 9,935 ملین امریکی ڈالر قرضہ حاصل کیا۔ اسی مالی سال میں صرف سود کی مد میں 1,678 ملین امریکی ڈالر ادا کیا، اسی وجہ سے قرض کم ہونے کے بجائے دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ کاش ہمارے حکمران سری لنکا کے معاشی بحران سے کچھ سبق حاصل کرتے اور معیشت کو آئی ایم ایف کے رحم و کرم کے بجائے مقامی پیداواری صنعت کو مضبوط بنیادوں پر پروان چڑھاتے تاکہ آزاد تجارت کی معاشی غلامی سے آزادی حاصل کی جاسکتی۔

سرمایہ دارانہ اور نوآبادیاتی حکومتی پالیسیوں کی زد میں مزدوروں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں دیہی آبادیاں بھی متاثر ہورہی ہیں۔ جس کی مثال ملک کی معیشت کے لیے انتہائی اہم فصل کپاس کی پیداوار میں بتدریج کمی ہے۔ کپاس جو کہ تاریخی طور پر ملک کے لیے زرمبادلہ کے حصول اور ملکی پیداواری صنعت کے لیے سب سے اہم جنس تصور کی جاتی ہے حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے۔ کپاس کی فصل دیہی آبادیوں خصوصاً عورت مزدور کے لیے روزگار کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی سے اس شعبہ سے وابستہ کسانوں اور مزدوروں کو شدید مسائل درپیش آرہے ہیں۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کی سب سے بڑی وجہ سرمایہ دارانہ نظام سے پیدا ہونے والی عالمی سطح پر درجہ حرارت میں شدید اضافہ ہے۔ اس موسمی بحران سے ایک طرف کپاس کی پیداوار میں بے تحاشہ کمی ہے اور دوسری طرف بین الاقوامی ایگرو کیمیکل کمپنیوں کے ہتھکنڈوں سے ہم اپنا بیج کھو کر ان کمپنیوں کے مہنگے ترین فرسودہ بیجوں کے محتاج ہو گئے ہیں۔

ملک بھر میں 89 چینی کے کارخانے ہیں جو کہ زیادہ تر سرمایہ دار اور جاگیردار سیاسی خاندانوں کے قبضے میں ہیں۔ گنے سے نا صرف چینی، بجلی، مولائسیس بلکہ گاڑیوں میں ڈالنے کے لیے ایندھن (ایتھنول) بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ اس ساری پیداوار سے سرمایہ دار سالانہ اربوں روپے کا منافع کماتے ہیں لیکن شوگر ملیں کل تین ماہ چلتی ہیں اور مزدوروں کو اونی پونی مزدور دی جاتی ہے۔ اسی طرح کسان جو کہ بے تحاشہ محنت سے گنا پیدا کرتا ہے اس کے ہاتھ پورے سال میں 10 ہزار ماہانہ سے زیادہ آمدنی نہیں آتی۔ دوسری طرف گنے پر کھیت مزدور کل تین ماہ کی مزدوری کرتے ہیں اور وہ بھی بمشکل تینوں مہینوں کو ملا کر 25 ہزار سے 35 ہزار روپے سے زیادہ نہیں کما پاتے۔

سرمایہ دارانہ کمپنیاں چاہے قومی ہوں یا بیرونی مزدور کو کئی ہربوں سے غلام جیسے حالات میں رکھتی ہیں۔ مزدوروں کو ناپکی نوکری فراہم کی جاتی ہے اور ناہی مزدوری پر رکھنے کے بعد انہیں ملازمت کا کوئی ثبوت دیا جاتا ہے۔ ایسے حالات گارمنٹ فیکٹریوں، سیمنٹ فیکٹریوں اور تقریباً ہر شعبے میں نظر آتے ہے۔ کورونا وباء کے دوران اور اس کے بعد بھی مزدوروں کو ناجائز طریقے سے کام سے ہٹایا گیا اور اب جبکہ حالات بہت بہتر ہیں تب بھی ان کے لیے مزدوری فراہم کرنے کوئی سہولیات نہیں دی گئیں۔

اطلاعات کے مطابق رواں مالی سال میں گندم کی پیداوار حکومت کی مقرر کردہ حدف سے کم متوقع ہے۔ جس سے پاکستانی عوام کو آٹے کے بحران کے نتیجے میں شدید تحفظ خوراک کے خطرات متوقع ہیں۔ عالمی سطح پر بھی روس اور یوکرین کے جنگ کے نتیجے میں گندم کی ترسیل کے بحران کا بھی اندازہ لگایا جارہا ہے، کیونکہ دنیا کے بہت سارے ممالک کا انحصار روس اور یوکرین درآمد شدہ گندم پر ہے۔ موجودہ حالات سے مزدور اور دیگر پسے ہوئے طبقات کی زندگی مزید اجیرن یقینی ہے۔

دنیا بھر میں سامراجی جارہیت پر مبنی جنگیں نمودار ہورہی ہیں۔ امریکی اور دیگر سامراجی قوتیں عوام کی روزی روٹی پر ایک شدید ضرب ڈال رہی ہیں۔ مزدور عوام کو ضرورت ہے کہ ان جنگی حالات میں اپنے روزگار اور خوراک کے مناسب بندوبست کے لیے حکومتوں سے امن مانگے تاکہ ان جنگی حالات سے نجات حاصل کی جاسکے۔ اس میں شک نہیں کہ جو سپاہی جنگوں میں مارے جاتے ہیں ان کا تعلق مزدور بستیوں سے ہوتا ہے۔ عامر حکمران اپنے بیٹے بیٹیوں کو کبھی جنگ میں ضائع نہیں کرتے۔ ناکہ ہم سامراجی جنگوں میں اپنا حصہ ڈالیں بہتر ہے کہ ہم ناصرف خوراک کی خود انحصاری بلکہ ملک و قوم کی خودانحصاری کی طرف توجہ دیں۔ یقیناً خودمختاری کا حصول اسی وقت ممکن ہے کہ جب زمین سمیت تمام پیداواری وسائل پر کسان مزدور طبقہ کا مکمل اختیار ہو اور پیداوار پائیدار اصولوں کے تحت ہو تاکہ ملک کو قرض اور سامراجیت سے نجات حاصل ہوسکے

پاکستان کسان مزدور تحریک مطالبہ کرتی ہے کہ
۔ ترقی پزیر ممالک خصوصاً پاکستان کے غیر ملکی قرضہ جات میں سہولت کے بجائے ان قرضوں کی منسوخی۔
۔ غیر منصفانہ تجارتی معاہدوں کی معطلی اور ان پر ازسرنو بات چیت۔
۔ انسانی اور جمہوری حقوق کی پاسداری۔
۔ سرکاری نظام کے تحت محنت کش و کسان مزدوروں کے لیے سماجی تحفط بشمولل صحت عامہ۔
۔ دفاعی بجٹ میں کٹوتی اور عوامی صحت اور سماجی خدمات کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم کی فراہمی۔
۔ نقدآور فصلوں کے بجائے گندم اور چاول کی فصلوں پر کسانوں کو سہولیات اور مراعات کی فراہمی تاکہ عوام کو غذائی بحران بچایا جاسکے۔

جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک