26-12-2020:پریس ریلیز
پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) نے 26 دسمبر، 2020 کو کورونا وباء کو مدنظر رکھتے ہوئے تیرہواں سالانہ اجلاس آن لائن منعقد کیا جس میں ملک بھر کے مختلف اضلاع سے پی کے ایم ٹی کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ارکان نے شرکت کی۔
ڈاکٹر عذرا طلعت سعید، روٹس فار ایکوٹی نے عالمی اور ملکی سطح پر کورونا کے اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام ہی کورونا وباء کا ذمہ دار ہے۔ ابھی ہم ایک وباء سے نہیں لڑپارہے اور دنیا بھر کے سائنسدانوں کی پیشنگوئی ہے کہ اب اس طرح کی کئی وبائیں آئیں گی کیونکہ سرمایہ دارانہ ہوس نے جنگلوں کو ختم کیا ہے اور یہ وبائیں زیادہ تر وہیں پائی جاتی ہیں۔ جنگلات کی کٹائی کے نتیجے میں اب یہ وبائیں انسانی آبادیوں میں جانوروں کے زریعے پھیل رہی ہیں۔
اس بحران نے اب دیگر بحرانوں کو جنم دیا ہے جس میں اقتصادی بحران مزدور کسان کے لیے وباء سے زیادہ سنگین صورتحال پیدا کررہا ہے۔ یہ وہ ہتھکنڈہ ہے جو اجارہ داری کی بنیاد پر سرمایہ داری کو بھاری بھرکم منافع کمانے کے لیے مواقع فراہم کر رہا ہے جبکہ مزدوروں کو اس وباء، بیروزگاری اور بھوک کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اب ہماری سرمایہ داروں کی غلام ریاستیں اس وباء کو روکنے اور عوامی ضروریات پوری کرنے کے لیے درکار مالی، مادی اور انسانی وسائل استعمال کرنے کے لیے اپنا اختیاراستعمال کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ عالمی سطح پر امیر سرمایہ دار ممالک اپنی دولت اور ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے کورونا کے خلاف ویکسین تیار اور ترسیل کرکے بے تحاشہ منافع کمانے میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام دعویٰ کرتا ہے کہ اس نظام میں سب کو یکساں رسائی حاصل ہوتی ہے لیکن کورونا ویکسین سے اس نظام کا یہ مکروہ فریب بھی کھل کر سامنے آگیا ہے کیونکہ یہ نظام طبقات پر مبنی ہے۔ جو زیادہ سے زیادہ دولت رکھتا ہے سہولیات بھی سب سے پہلے اسے ہی میسر آتی ہیں۔پی کے ایم ٹی سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ارکان راجہ مجیب، محمد زمان اور آصف خان نے کورونا وباء کے دوران کسانوں کو درپیش مشکلات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور جو پہلے ہی موسمی تبدیلی اور اس کے نتیجے میں آنے والے موسمی بحرانوں کی وجہ سے پیداوار میں کمی اور فصلوں کی تباہی سے دوچار ہیں، کورونا وباء کے دوران نقل و حمل، ترسیل اور سفری پاپندیوں کی وجہ سے زرعی مداخل کی زائد قیمت ادا کرنے پر مجبور کردیے گئے جبکہ زرائع نقل و حمل محدود اور مہنگے ہونے کی وجہ سے کسانوں کو یا تو پیداوار کی قیمت انتہائی کم ملی یا پھر ان کی پیداوار ضائع ہوئی۔ اس صورتحال سے دودھ، پھل سبزیوں جیسی تازہ غذائی اشیاء کی پیداوار اور اس کی ترسیل سے جڑے کسان سب زیادہ متاثر ہونے والوں میں شامل ہیں۔ مویشی پالنے والے کسان اپنی یومیہ آمدنی سے محروم ہوئے کیونکہ زرائع آمدورفت محدود ہونے کی وجہ سے دودھ کی طلب کم ہونے سے اس کی قیمت تقریباً آدھی ہوگئی تھی۔ اسی طرح کھیتوں میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے کسان مزدوروں، عورتوں کو کام کی جگہ پر پہنچنے کے لیے زرائع میسر نہیں تھے تو دوسری طرف انہیں پابندیوں کی وجہ سے مختلف مقامات پر رشوت بھی دینی پڑتی تھی۔
وباء کے دوران خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بھوک اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اقتصادی سروے 2019-20 کے مطابق خدشہ ہے کہ کورونا وباء کے معیشت پر پڑنے والے بدترین اثرات کی وجہ سے مزید 10 ملین افراد خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے جس کے بعد یہ تعداد 50 ملین سے بڑھ کر 60 ملین ہوسکتی ہے۔
پی کے ایم ٹی، ساہیوال کے رکن چوہدری اسلم اور روٹس فار ایکوٹی کی ایمن بابر نے اس ظلم کی نشاندہی کی جو اس وباء کے ہوتے ہوئے بھی ڈیری شعبہ میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری، کاروباری مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ تمام صوبوں خصوصاً پنجاب میں خالص خوراک کے قوانین (پیور فوڈ لاز) کے ذریعے عالمی تجارتی ادارے (ڈبلیو ٹی او) کے معاہدے سینیٹری اینڈ فائٹو سینیٹری کا نفاذ کیا جارہا ہے جو مال مویشی، چارا، دودھ اور بیج کے پیداواری شعبہ جات میں کمپنیوں کی اجارہ داری کا سبب بنے گا جس سے صرف پنجاب کی ہی 93 فیصد عورتیں وابستہ ہے۔ اس وقت 95 فیصد دودھ کی منڈی چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے ہاتھ میں ہے اور یہ سامراجی پالیسیاں لاکھوں چھوٹے و بے زمین کسان مزدوروں کے استحصال اور ان کی بے روزگاری کا سبب بنیں گی۔اس صورتحال میں عوام خصوصاً عورتیں اور بچے صحت بخش خوراک اور غذائیت سے محروم ہوجائیں گے جو یقینا بھوک اور غذائی کمی میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وباء سے پیدا ہونے والی بے روزگاری کے دوران لاکھوں دیہی گھرانوں نے صرف دودھ اور روٹی پر گزارا کیا۔
ریلوے ورکرز یونین سے تعلق رکھنے والے مزدور رہنما جنید اعوان نے کورونا وباء کے دوران مزدوروں کی بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خود عالمی بینک کے مطابق کورونا وباء کی وجہ سے دنیا میں مزید 109 سے 150 ملین افراد کے خط غربت سے نیچے چلے جانے کا اندیشہ ہے، اس کے باوجود عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی نجکاری، ڈی ریگولیشن اور لبرلائزیشن جیسی پالیسیوں پر عملدرآمد جاری ہے جس نے مزدوروں کے لیے حالات بد سے بدتر بنا دیے ہیں۔ اسی نجکاری پالیسی کے تحت حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز کے ہزاروں ملازمین کو بیروزگار کردیا ہے اور اب پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (PIA) سے بھی ہزاروں ملازمین کو فارغ کیا جارہا ہے۔ پاکستان ریلوے میں مختلف کمپنیاں بنائی جارہی ہیں تاکہ ریلوے کو ٹکڑوں میں باٹا جائے اور اسے بھی نجکاری کی بھینٹ چڑھا کر مزدوروں کو بیروزگار کیا جائے۔ پاکستان ریلوے میں مزدور بدترین استحصال کا شکار ہیں جہاں بھرتیاں نہ ہونے کی وجہ سے عملہ کم ہوگیا ہے۔ اب یہ سننے میں آرہا ہے کہ سی پیک کے ریل منصوبے ایم ایل۔ون کے لیے مزدور بھی چین سے ہی لائے جائیں گے۔ تین سالوں سے ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو واجبات ادا نہیں کیے جارہے، تنخواہوں سے پانچ فیصدکٹوتی ہوتی ہے لیکن مزدوروں کے کواٹروں کی مرمت نہیں کی جاتی۔ ملک بھر کی طرح فرنٹ لائن پر کام کرنے والے مزدروں کی طرح ریلوے کے بھی کئی ملازمین کورونا کا شکار ہوچکے ہیں لیکن ریلوے کے ہسپتال بدترین حالت میں ہیں جہاں سرددرد کی دوائی تک میسرنہیں۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی مزدور یونینوں کو خاموش کرنے کے لیے مزدور رہنماؤں پر دہشت گردی کے مقدمات بنائے جارہے ہیں۔ مزدروں کے یہ مسائل ان اسمبلیوں میں حل نہیں ہونگے جہاں بیٹھے جاگیردار اور سرمایہ دار ہمارے نمائندے نہیں۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے ہمیں خود میدان میں آکر جدوجہد کرنی ہوگی۔
پی کے ایم ٹی ہری پور کی رکن عالیہ محسن نے کارخانوں اور دیگرکام کی جگہوں پر عورتوں کو درپیش مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کل مزدوروں میں عورتوں کا حصہ ایک چوتھائی ہے۔ عورتیں کھیتوں، کارخانوں، گھریلو صنعت، سرکاری و نجی دفاتر، ہر جگہ محنت سے کام کررہی ہیں لیکن افسوس کے عورتوں کی آبادی کے تناسب سے مزدور عورتوں کی تعداد بہت کم ہے جس کی بنیادی وجہ کارخانوں اور دیگر کام کی جگہوں پر مناسب، محفوظ ماحول کا نہ ہونا اور مزدور عورتوں کی حق تلفی ہے۔ ملازمت کا تحریری معاہدہ ہر مزدور کا حق ہے لیکن زیادہ تر کارخانوں میں اس پر عمل نہیں کیا جاتا اور اگر معاہدہ ہو بھی تو اس کی دستاویز مزدوروں کو نہیں دی جاتی۔ پاکستانی قوانین کے مطابق 18 سال سے کم عمر افراد کو ملازمت پر رکھنا جرم ہے لیکن اس کی کھلے عام خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے مزدور کی کم از کم تنخواہ 1,7500 روپے مقرر ہے لیکن بہت سے اداروں، کارخانوں اور دفاتر میں مزدوروں سے 17,500 روپے کی رسید پر دستخط لیے جاتے ہیں لیکن انہیں 7,000 سے 8,000 روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔ مزدورو عورتوں کو زچگی سے متعلق مراعات نہ دینے، یونین سازی نہ ہونے دینے جیسے مسائل عام ہیں۔ مزدورو عورتوں کے حقوق کے لیے تنظیم سازی ضروری ہے جو مزدور قوانین پر عملدآمد کو یقینی بنائے اور مزدور عورتوں میں سرمایہ داری اور پدرشاہی کے خلاف تعلیم وآگاہی فراہم کرے۔
پی کے ایم ٹی ہری پور کے رکن طارق محمود نے اس موقع پر کہا کہ ایک طرف ایک فیصد سرمایہ دار و جاگیردار ہیں اور دوسری طرف ہم 99 فیصد کسان مزدور عوام، یہ صرف گاؤں دیہات کی نہیں بلکہ شہروں کی بھی جنگ ہے، اور سامراج کے خلاف اس جنگ کو ہر جگہ لڑنے کی ضرورت ہے۔ متحد ہوکر تمام چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور سرمایہ دار، جاگیردار اور پدر شاہی کے خلاف مل جل کر جدوجہد کریں تو ہماری تحریک آگے بڑھے گی۔
جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک