کورونا کا سبق: سرمایہ داری کا خاتمہ لازم

یکم مئی: مزدوروں کا عالمی دن
پریس ریلز
یکم مئی 2020

دنیا بھر میں یکم مئی، 1886 میں شکاگو کے مزدوروں کی جدوجہد کی یاد میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) اور روٹس فار ایکوٹی نے لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے پیش نظر اس دن کی مناسبت سے جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے ایک آن لائن مزاکرہ کا اہتمام کیا۔ جس میں ملک بھر سے مزدور کسان رہنماؤں اور کسان دوست ساتھیوں نے شرکت کی۔

کورونا وائرس کی موجودہ وبائی صورتحال نے ناصرف سرمایہ دارانہ نظام کی نااہلی اور سفاکیت کو بے نقاب کیا ہے جو بھوک، غربت اور وبائی صورتحال میں بھی خود کو برقرار رکھنے کے لیے عوامی فلاح پر منافع کو فوقیت دے رہا ہے بلکہ سامراجیت پر مبنی مزدور دشمن پالیسیوں کے بھیانک اثرات کو بھی مزید واضح کررہا ہے۔ آزاد تجارت پر مبنی پالیسیوں نے ریاستوں کو اس حال میں لاکھڑا کیا ہے کہ وہ اس وباء کو روکنے اور عوامی ضروریات پوری کرنے کے لیے درکار مالی، مادی اور انسانی وسائل کے لیے اپنا اختیار استعمال کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ یاد رہے پاکستان جیسے ممالک میں صحت عامہ کے لیے مختص کیا گیا بجٹ کبھی بھی مجموعی بجٹ کا تین فیصد سے زیادہ نہیں رکھا گیا اور صحت کے شعبہ کو مجموعی طور پر نجی شعبہ کے حوالے کردیا گیا اور آج ہمارے صحت کے نظام کی انتہائی ناقص سہولیات اور بدانتظامی بے نقاب ہورہی ہے۔ دولت مند آمر طبقہ تو بچ کر نکل ہی جائے گا لیکن یہ صورتحال مزدور و محنت کش طبقہ کے لیے بدترین ہے۔

نجکاری، ڈی ریگولیشن اور آزاد تجارت پر مبنی نیولبرل پالیسیاں موجودہ وبائی بحران میں مزدور طبقہ کی بیروزگاری، معاشی، طبی و سماجی تحفظ میں ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔ سرکاری شعبہ میں چلنے والی صنعتوں اور اداروں میں مزدوروں کو روزگار کی ضمانت، تعلیم، رہائش، صحت کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات بھی حاصل ہوتی تھیں جبکہ نجی شعبہ میں مزدوروں کو مستقل روزگار کے حق سے ہی محروم کردیا گیا ہے جو ملک میں بھوک، غربت، بیروزگاری کی بنیادی وجوہات میں شامل ہے اور موجودہ وبائی صورتحال نے ان مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔

کورونا وائرس کے دوران تقریباً تمام پیداواری صنعتیں اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے مزدور و محنت کش طبقہ شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ وبائی بحران میں عالمی طلب میں کمی کی وجہ سے پاکستان میں کپڑے کی صنعت سے وابسطہ تقریباً ایک ملین مزدوروں کے بے روزگار ہونے کا اندیشہ ہے۔ صرف پنجاب میں ہی کپڑے کی صنعت سے وابستہ کم از کم 500,000 مزدوروں کو برطرف کیا جاچکا ہے۔ کے پی حکومت کے محکمہ منصوبہ بندی و ترقی کے مطابق اگر موجودہ لاک ڈاؤن کی صورتحال جاری رہی تو صوبے بھر میں بشمول یومیہ اجرت پر کام کرنے والے 460,000 مزدور اور خوانچہ فروش (اسٹریٹ وینڈرز) بے روزگار ہوجائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق کے پی میں حطار صنعتی علاقے میں کئی صنعتوں سے سینکڑوں مزدوروں کو برطرف کردیا گیا ہے۔ اسی طرح کراچی کے صنعتی علاقے سائٹ ایریا میں ایک ٹیکسٹائل فیکٹری نے اپنے 700 مزدوروں کو برطرف کردیا۔ ملک کے دیگر صنعتی علاقوں میں بھی لاک ڈاؤن کو جواز بناکر مزدوروں کی جبری برطرفی، تنخواہوں میں کٹوتی اور جبری رخصت دینے کا عمل بھی جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تارکین وطن محنت کش بھی جو زرمبادلہ کے حصول کا اہم ترین زریعہ ہیں سخت پریشانی سے دوچار ہیں۔

کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اعلان کردہ امداد سے مزدور طبقہ کی اکثریت باقائدہ اندراج نہ ہونے جیسی کئی وجوہات کی بناء پر محروم ہے۔ حکومت کی جانب سے مزدوروں بشمول یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے صرف 200 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ 62 ملین مزدور و محنت کش صرف صنعتی اور خدمات کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور زرعی شعبہ میں کام کرنے والے مزدور اس تعداد میں شامل نہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زرعی شعبہ میں اور گھروں پر کام کرنے والے غیررسمی اور کھیت مزدور خصوصاً مزدور عورتیں جو پہلے ہی انتہائی کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور تھیں لاک ڈاؤن کے دوران شدید معاشی مسائل سے دوچار ہیں اور زیادہ تر سرکاری امداد سے بھی محروم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گھر میں معاشی اور سماجی پریشانیوں سے گھرے حالات میں پدر شاہی نظام کے تحت تشدد کا بھی شکار ہیں۔ جاگیردار، سرمایہ دار اور اشرافیہ پر مبنی حکومت کی جانب سے مزدوروں اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے مختص کردہ 200 بلین روپے کی معمولی رقم ہی حکومتی کوششوں کا پول کھولنے کے لیے کافی ہے۔ یہ عوامل اس بات کا ثبوت ہیں کہ موجودہ نظام میں عوامی فلاح ناممکن ہے۔

ملک میں بڑھتی ہوئی بھوک، بیروزگاری خصوصاً موجودہ وبائی صورتحال کا تقاضہ ہے کہ منافع کے لیے نجکاری اور آزاد تجارت جیسی نیولبرل پالیسیوں کا خاتمہ کرکے پیداوار سے لے کر بنیادی خدمات کی فراہمی کے نظام بشمول شعبہ صحت عامہ کو سرکاری ملکیت میں لے کر مزدوروں کے روزگار، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق کو یقینی بنایا جائے۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ ناصرف خوراک کی خود انحصاری بلکہ مکمل قوم و ملک کی ترقی کے لیے اہم ترین بنیاد ہے۔ خودمختاری کا حصول اسی وقت ممکن ہے کہ جب زمین سمیت تمام پیداواری وسائل پر کسان مزدور طبقہ کا مکمل اختیار ہو اور پیداوار پائیدار اصولوں کے تحت ہو تاکہ ملک کو قرض اور سامراجیت سے نجات حاصل ہوسکے

پاکستان کسان مزدور تحریک مطالبہ کرتی ہے کہ
۔ محنت کشوں کے لیے فوری طور پر آمدنی کی ضمانت و مراعات اور مالی مدد۔  
۔ بڑے پیمانے پر کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی مفت سہولت اور عوام کو مناسب طبی خدمات۔  
۔ محنت کش و کسان مزدوروں کے لیے سماجی تحفظ۔ 
۔ ترقی پزیر ممالک خصوصاً پاکستان کے غیر ملکی قرضہ جات میں سہولت کے بجائے ان قرضوں کی منسوخی۔  
۔ غیر منصفانہ تجارتی معاہدوں کی معطلی اور ان پر ازسرنو بات چیت۔  
۔ سرکاری نظام کے تحت صحت عامہ کا نفاذ۔ 
۔ انسانی اور جمہوری حقوق کی پاسداری۔ 
۔ ایران اور فلسطین سمیت دیگر ممالک پر عائد پابندیوں کا فوری خاتمہ۔ 
۔ دفاعی بجٹ میں کٹوتی اور عوامی صحت اور سماجی خدمات کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم کی فراہمی۔ 

English Press Release Labor Day 2020

جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک