زمین سے محروم کسانوں کا نعرہ: زمین کا منصفانہ اور مساویانہ ہو بٹوارہ

  بے زمینوں کا عالمی دن

 پریس ریلیز

March 29, 2021

پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) اور روٹس فار ایکوٹی نے ایشین پیزنٹ کولیشن (اے پی سی) کے اشتراک سے 29 مارچ، 2021 کو بے زمینوں کا دن منایا۔ اس حوالے سے ایک وبینار کا اہتمام کیا گیا جس میں کسانوں کا زمین اور دیگر اہم پیداواری وسائل پر حق کو منوانے کے لیے زرعی کیمیائی بین الاقوامی کمپنیوں کی اجارہ داری کے خاتمہ کے ذریعہ خوارک کے عالمی پیداوار اور تقسیم کے نظام میں فوری زرعی اصلاحات اور دیہی ترقی کی شدید اہمیت کو باور کرایا گیا۔

قاسم ترمذی نے نوآبادیاتی دور میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کسانوں کی جدوجہد پر بات کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ برطانوی سامراج نے برصغیر میں جان بوجھ کر سماجی، تاریخی اور سیاسی عمل کے ذریعہ بے زمینی پیدا کی۔ برطانوی سامراج نے زمینی ملکیت کو انعام کے نظام کے طور پر استعمال کیا۔ ان قبیلوں اور ذاتوں کو زمین دی گئیں جو برصغیر میں انگریز کے سامراجی ایجنڈے کے لیے مددگار ثابت ہوئے۔ انہوں نے کسانوں کی مختلف تحریکوں اور جدوجہد کے بارے میں تفصیل سے بتایا، جن میں پنجاب کسان سبھا بھی شامل ہے، جس نے زمین پر نوآبادیاتی قبضہ کے خلاف مزاہمت کی اور انگریزوں کے خوفناک ظلم کا شکار ہوئے۔ اس ظلم کا شکار نہ صرف وہ ہوئے جو نوآبادیاتی قبضہ کے خلاف مزاہمت کررہے تھے بلکہ وہ بھی جو جاگیرداروں اور کسانوں کے بیچ نئے سماجی رشتے کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نجی ملکیت میں توسیع اور کسانوں اور جاگیردار کے مابین رشتہ کو باضابطہ بنانے کے نتیجہ میں انگریز سامراج کے حواریوں کو زبردست طاقت اور عزت ملی۔ برطانوی سامراج نے کسان اور جاگیردار کے مابین مزارعہ/ ہاری اور جاگیردار کا استحصالی رشتہ پیدا کیا جو برصغیر میں موجودہ جاگیرداری اس کی ایک شکل ہے۔ آخر میں انہوں نے زور دیا کہ آج کی استحصالی قوتوں پر قابو پانے کے لیے کسانوں کی پر زور تحریک وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ماضی کی کسان تحریکیں ہمارے باپ دادا کے دور سے ملا ہوا ایک سبق ہے۔

گاؤں گڑھی بجاز، پشاور کے بے زمین کسان لال زمین نے کہا کہ ان کی آبادی سخت مشکلات اور ظلم کا شکار ہے، جس میں ایک مقامی جاگیردار جو کہ ملکی سیاست میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے کہ جانب سے حراساں کیا جانا، جھوٹے مقدمات کے الزامات میں کئی دفعہ قید و بند ہونا شامل ہے۔ ان جاگیرداروں کا برطانوی نوآبادیات کے دور سے تعلق واضع ہے۔ اب سرمایہ کاری اور بڑے ترقیاتی منصوبوں مثلاً ناردن بائی پاس کے نام پر زمینی قبضہ کے نتیجہ میں کسانوں کو ان کی زمین سے بے دخلی کے ساتھ ساتھ روزگار کے خاتمہ کا سامنا ہے۔ لال زمین کا کہنا تھا کہ ”مقدمات اب بھی عدالتوں میں جاری ہیں مگر ہم زمین پر اپنے حق کے حصول کے لیے جدوجہد کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں!“
مانسہرہ، خیبرپختونخوا سے ایک چھوٹے کسان طیب الرحمان نے قدرتی وسائل شاملات اور جنگلات پر مقامی آبادیوں کے حق پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مقامی آبادیاں صدیوں سے ان قدرتی وسائل کو بڑھا اور محفوظ کرتے ہوئے اس قدرتی نظام کا ایک کلیدی حصہ بھی ہیں۔ زمینی قبضہ کے ایجنڈے کے تحت حکومتی ادارے یہاں مقامی آبادیوں کو جنگلات کے وسائل تک رسائی سے روک رہے ہیں۔ ان آبادیوں کا زندگی اور روزگار کے لیے جنگلات کے وسائل پر دارومدار ہے اس لیے ان کی اس بنیادی حق کو نہ صرف تسلیم کیا جانا چاہیے بلکہ تحفظ بھی دینا چاہیے۔ چھوٹے اور بے زمین کسان پہلے ہی بمشکل زمین اور دیگر وسائل تک رسائی رکھتے ہیں۔ جاگیرداری کے طاقتور نظام کے تحت کسان آبادیاں استحصالی شرائط، حالات اور آمدنی کے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہیں۔

گھوٹکی، سندھ سے کسان عورت ریحانہ کوثر کا کہنا تھا آپ سب جانتے ہیں کہ ہمارے سماج میں عورتوں کو زمین کی ملکیت نہیں ملتی! اگر کسی عورت کے پاس زمین ہو بھی تو وہ زمین کی حقیقی مالک نہیں ہوتی۔ میں خود ایسی عورتوں کو جانتی ہوں جن کے نام زمین ہے تو سہی لیکن وہ برائے نام ہے۔ آج بھی سندھ میں جاگیرداری مضبوط شکل میں موجود ہے جہاں عورتوں پر ہر طرح کے ظلم کیے جاتے ہیں۔ دیہی ہو یا شہری آبادی، عورت ایک کام کرنے والی مشین بن کر رہ گئی ہے۔

زرعی زمین پر کام کرنے والی عورتوں کو مختلف مسائل درپیش ہیں۔ عورتیں پورا دن مردوں سے زیادہ کام کرتی ہیں لیکن ان کو مزدوری یا اجرت مردوں کے مقابلے میں آدھی دی جاتی ہے۔ گھروں میں سالوں کی محنت سے عورت کوئی جانور پالتی ہے لیکن گھر کا مرد اسے بیچ دیتا ہے اور عورت کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ زمین کا حق تو دور کی بات ہے، یہاں عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ زراعت میں سرمایہ داری کے قبضے کی وجہ سے بے زمینی مزید بڑھ رہی ہے۔ بے زمینی اور زراعت مسلسل نقصان کی وجہ سے کسان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہے۔ کورونا وبا نے مزید پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ زمین کا بٹوارہ، جاگیرداری اور پدرشاہی نظام کا خاتمہ واحد حل ہے۔
مقررین نے دیگر اہم نقاط پیش کیے۔ صنعتی کیمیائی زراعت جو سرمایہ دارانہ بین الاقوامی کمپنیوں کو فائدہ پہنچاتی ہے یہ کمپنیاں زرعی مداخل کی منڈی پر قابض ہیں جو چھوٹے اور بے زمین کسانوں کو قرض کے دائرے اور انحصاری کے ساتھ ساتھ ان کے خوراک کی خودمختاری کے حق کو بھی ختم کررہی ہے۔ بے زمین اور چھوٹے کسان جن کی زمین اور دیگر وسائل تک رسائی پہلے ہی بہت کمزور ہے اور ساتھ ساتھ وہ طاقتور جاگیردارانہ نظام کے تحت کام اور اجرت کے استحصالی رشتوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ پورے ملک کے لیے تحفظ خوراک کو یقینی بنانے والی دیہی آبادیاں، شہری آبادیوں کے مقابلے میں غذائی کمی، خون کی کمی، نشوونما میں کمی اور زچگی کے دوران اموات کا زیادہ شکار ہیں۔

مزید یہ کہ کورونا وباء کے ساتھ ساتھ موسمی تبدیلوں کی وجہ سے فصلوں کی تباہی اور کیٹروں کے حملوں کی وجہ سے چھوٹے اور بے زمین کسان اضافی معاشی اور صحت کے مسائل کا شکار ہیں جو کہ موجودہ سرمایہ داری نظام میں موجود عدم مساوات اور ظلم کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس طویل سماجی، معاشی اور صحت کے بحران کے دور میں بے زمین کسان شدید خوراک اور روزگار کی کمی کا شکار ہیں جو انہیں دائمی غربت کی دہلیز پر کھڑے ہوئے ہیں۔ ان ابتر حالات میں بھی بڑی بڑی سرمایہ دار کمپنیوں کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر زمین اور وسائل پر قبضہ عروج پر ہے۔

لاک ڈاؤن پالیسیوں، سفری پابندیوں اور مہنگے کرایوں کی وجہ سے خوراک کے تمام مراحل متاثر ہوئے ہیں، جس کے نتیجہ میں کھانے پینے کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ اور بڑے پیمانے پر تحفظ خوراک کے مسائل درپیش ہیں۔ ان حالات میں خصوصاً بے زمین کسان مختلف موسموں میں کھیتی باڑی کے کام کی تلاش میں مختلف اضلاع میں نقل مکانی کرتے تھے، مسائل کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کے تحفظ خوراک کی صورتحال مزید گھمبیر ہوگئی ہے۔ گندم کی کٹائی کرنے والے اس کا خاص شکار ہیں۔ مشینی زراعت اور کپاس کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے بے زمین زرعی مزدور عورتوں کی آمدنی کے مواقعوں میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ مہنگی زرعی مداخل مثلاً کھاد، ادویات اور مختلف وجوہات کی بناء پر فصلوں کی تباہی بے زمین کسانوں کے اخراجات تک پورے کرنے اور قرضوں کی واپسی میں بھی سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ بہت سے مواقعوں پر کسانوں نے سبزیاں اور ایسی دیگر اجناس انتہائی کم قیمت پر منڈی میں فروخت کیا یا پھر آمدورفت کے اخراجات میں کمی کی وجہ سے فصل ضائع کردی۔

پاکستان کسان مزدور تحریک اور روٹس فار ایکوٹی ان حالات میں فوری مطالبہ کرتی ہے کہ کسانوں کے زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کے مطالبہ کو پورا کیا جائے۔ ساتھ ساتھ نظام کی پائیدار تبدیلی اور عالمی خوراک کے نظام کی تبدیلی کا بھی مطالبہ کرتی ہے۔

۔ تمام پس ماندہ شعبے بشمول بے زمین کسان، زرعی مزدور خاص طور پر عورتیں اور دیگر دیہی آبادیوں کے گروہوں کو فوری خاطر خواہ معاشی سہولیات کے ذریعہ سماجی تحفظ اور مراعات فراہم کی جائیں۔ لاک ڈاؤن اور کورونا وبا کے حوالے سے ایسی کسان مزدور دوست پالیسیاں بنائی جائیں کہ چھوٹے اور بے زمین کسانوں کی زندگی اور روزگار پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔

۔ خوراک اور زراعت کے شعبے میں کمپنیوں کے قبضے سے نجات کے ساتھ نیو لبرل زرعی قوانین پر پابندی لاگو کی جائے جو کہ چھوٹے اور بے زمین کسانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

۔ کسانوں کی آبائی زمین سے بے دخلی پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ ترقیاتی کاموں کے بہانے زمین اور وسائل پر سرمایہ کاروں اور سرمایہ داروں کے قبضے کو فروغ دینا بند کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ، مقامی اور قبائلی لوگوں کے جنگلات، شاملات اور دیگر قدرتی وسائل پر مقامی حقوق کو لازم کیا جائے۔

۔ منصفانہ زمینی بٹوارے کو یقینی بنایا جائے تاکہ بے زمین کسانوں اور زرعی مزدور عورتوں کو زمین اور خوراک کی خود مختاری یقینی ہو۔

۔ صحت کے سرکاری نظام کو معیاری بناتے ہوئے دیہی آبادیوں کی حکومتی صحت کی سہولیات تک رسائی یقینی بنائی جائے، جس میں کورونا وبا کے لیے ٹیسٹنگ اور علاج شامل ہیں۔

جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) اور روٹس فار ایکوٹی۔