پریس ریلیز| 19 ستمبر 2022
پاکستان کے کل 160 اضلاع میں سے 81 اضلاع موسمی بحران کی وجہ سے آنے والے سیلاب کی زد میں آکر شدید متاثر ہوئے ہیں، جبکہ سندھ میں کئی مہینوں پر مبنی مسلسل بارش اور پھر دریائی سیلابی ریلوں نے 23 اضلاع میں دیہی زندگی کو شدید متاثر کیا ہے اور اگر کراچی کے 7 اضلاع کو بھی شامل کرلیں تو پورے سندھ کو اس طوفانی بارش اور سیلاب سے شدید نقصان پہنچا ہے۔
پاکستان میں کل 8.3 ملین ایکڑ زمین پر فصلیں متاثر ہوئیں جبکہ سندھ کی 3.5 ملین ایکڑ زمین پر فصلیں برباد ہوئیں۔ اس نقصان کی زد میں گوٹھ در گوٹھ ڈوب گئے ہیں۔ اب تک کی خبروں کے مطابق 1,545 افراد کے جانی نقصان کے ساتھ ساتھ شدید مالی نقصان بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) سندھ کی 17 ستمبر کی رپورٹ کے مطابق 678 افراد، 232,593 جانور اور 1,729,584 گھروں کا نقصان ہوا ہے۔ 20 جون سے 30 اگست تک اس سیلاب سے مجموعی طور پر 18,138 جانور جاں بحق ہوئے تھے جبکہ ستمبر کے صرف پہلے 17 دنوں میں 214,455 مزید جانور ختم ہوگئے ہیں۔ باقی اعداد و شمار میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ سامراجی طرز پیداوار جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد اور سرمائے کی ہوس پر قائم ہے، فضاء میں کاربن کے مسلسل اور بے تحاشہ اخراج اور عالمی حدت میں اضافے کا ذمہ دار ہے۔ دنیا بھر میں اس اخراج کے نتیجے میں ہونے والے موسمی بحران شدت اختیار کرتے ہوئے پہ درپہ موسمی آفات کے واقعات میں بے تحاشہ اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس وقت ناصرف پاکستان بلکہ بھارت، سوڈان اور اٹلی میں بھی ہنگامی سیلابی صورتحال ہے۔
ایک طرف امریکی اور یورپی حکومتوں کی عوام دشمن پالیسیاں ہیں اور دوسری طرف یہ بھی و اضح ہے کہ پاکستان کی سرکار اور اشرافیہ کو اس تباہی اور عوام الناس، خاص طور پر کسانوں پر پڑنے والے سنگین ترحالات سے کوئی غرض نہیں۔ خصوصاً سندھ میں حکومت اور وڈیرہ شاہی کی نہایت افسوس ناک کارکردگی ہے۔ بارش اور سیلابی پانی کی وجہ سے کھڑی فصلیں تو تباہ ہوہی چکی ہیں مزید یہ کہ چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے لیے گندم کی بوائی بھی خطرہ سے دوچار ہے۔ خیرپور، گھوٹکی اور شکارپور کے علاقوں میں کئی مقامات پر پانی جوں کا توں کھڑا ہے۔ جاگیردار صرف اپنی زمینوں سے پانی نکالنے کے لیے سرکاری مشینری کا استعمال کررہے ہیں اور سیم نالے صاف کراتے نظر آرہے جبکہ چھوٹے اور بے زمین کسان سرکاری توجہ کے انتظار میں بے آسرا بیٹھیں ہیں۔ کوئی حکومتی عملہ ان کی زمینوں سے پانی نکالنے تو کیا صرف جائزہ لینے کے لیے بھی نہیں آیا۔ بعض علاقوں میں جہاں سیم نالے قریب نہیں ہیں وہاں وڈیرہ شاہی اپنی زمینوں سے پانی نکال کر دیگر کھیتوں کی طرف پھینک رہے ہیں۔ چھوٹے کسان ان کو منع کرتے ہیں یا اپنی زمینوں سے پانی آگے کی طرف نکالنا چاہتے ہیں تو پولیس اور وڈیرہ شاہی کے عتاب کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔
یہ نکتہ اہم ترین ہے کہ اگر چھوٹے اور بے زمین کسان اگلے مہینوں میں گندم کاشت نہیں کرسکے تو بھوک اور غذائی کمی خصوصاً دیہی علاقوں میں بہت بڑھ جائے گی۔ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق بھوک کے حوالہ سے پاکستان 116 ممالک میں 92 ویں درجہ پر تھا یعنی پاکستانی عوام میں بھوک کی صورتحال پہلے ہی سے سنگین ہے۔ اپریل 2022 سے لے کر اگست 2022 تک سندھ میں آٹے کی قیمت میں تقریباً 36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت جبکہ ابھی منڈی میں پچھلی فصل کا ذخیرہ موجود ہے تو یہ صورتحال ہے۔ اب جبکہ خریف کی فصل بالکل تباہ ہوگئی ہے جس میں چاول شامل ہے اور آنے والے مہینوں میں گندم کی فصل بھی اگر متاثر ہوتی ہے تو پھر عام مزدور و کسان اپنی خوراک اور غذائی ضروریات کیسے پوری کرے گا اورمعاشی لحاظ سے کہاں کھڑا ہوگا؟
ہماری حکومت چاہے پاکستان کی ہو یا سندھ کی، غریب مزدور کسان کی بدحالی سے مستقل آنکھیں چرارہی ہے۔ یہ کسان ہی کی انتھک محنت ہے کہ پاکستانی عوام، خاص کرکے پاکستان کے جاگیردار، وڈیرہ شاہی، خان، سردار اربوں روپے کا منافع حاصل کرتے ہیں۔ ان کے گھروں میں خوشحالی ہے، اعلیٰ سے اعلیٰ رزق ان کو مہیا ہوتا ہے۔ یہ سب کسان کی بدولت ہے۔ اس مشکل وقت میں اگر انصاف نہ ہوا، ہماری زمینوں کو کاشت کے قابل نہ بنایا گیا، بروقت بہتر بیج اور کاشت کے لیے ضروری زرعی اشیاء مہیا نہ کی گئیں تو پھر ملک بھر کے چھوٹے اور بے زمین کسان بھوک، غربت اور ذلت کی زندگی نہ برداشت کریں، نہ ہی خاموش رہیں گے اور اپنا حق لے کر رہیں گے۔
اس وقت ناصرف کسان اپنی روزی و زمین سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے بلکہ خوراک، ادویات اور پینے کے لیے صاف پانی سے بھی محروم ہیں۔ لاکھوں کسان عورتیں بغیر چھت کے دھوپ اور گرمی برداشت کررہی ہیں۔ ان کے پاس سونے کے لیے بستر تک نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی وبائیں اور بیماریاں بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ سندھ کی کسان عورت کی نہایت اہم فصل کپاس تقریباً تباہ ہوچکی ہے جس کی چنائی کرکے لاکھوں کسان و مزدور عورتیں کچھ نقد رقم اور جلانے کے لیے لکڑی حاصل کرپاتی تھیں۔ جانوروں کے چارے کا بھی فقدان ہے اور کئی سندھی کسان عورتیں اپنے جانوروں کے ساتھ کئی سو میل کا سفر طے کرتے ہوئے پنجاب کی طرف نقل مکانی کرتے ہوئے نظر آئی ہیں، ہسپتالوں اور فارمیسیوں میں ادویات کی شدید کمی ہے۔ انسانوں اور جانوروں کے لیے مچھردانیوں کی بھی اشد ضرورت ہے۔ بازار میں ہر ضروری اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں۔ ہماری ریاست کہاں ہے؟ سندھ سرکار کہاں ہے؟ قیمتوں پر قابو کیوں نہیں پایا جارہا؟ دیہی آبادیوں کو بنیادی ضروریات کیوں فراہم نہیں کی جارہی ہیں؟ یہ ریاست کا کام ہے کہ امریکہ اور یورپ کے سامراجی ممالک سے ہمارے نقصانات کے ازالے کا مطالبہ کرے۔ ان حالات میں نہ کہ ریاست عوام کی تکلیف پر نظر رکھتی امریکی فوجی آکر یہاں کا دورہ کرکے پاکستان کی سرکار کے لیے مزید جنگ و اسلحہ کی خریداری کے لیے 450 ملین امریکی ڈالر کی منظوری کی پیش کش کررہے ہیں۔ ہم سامراجیت کے ان ہتھکنڈوں سے انکار کرتے ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ
۔ سامراجی ممالک سے موسمی بحران سے ہونے والی تباہی اور مالی خسارے کے ازالے کا مطالبہ کیا جائے۔
۔ تمام دیہی آبادیوں کے لیے انسانی حقوق کی بنیاد پر خوراک، پانی، ادویات، محفوظ مقامات اور دیگر انتظامات فی الفور کیے جائیں۔
۔ عورتوں کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے لیے مخصوص انتظامات کیے جائیں۔ خاص کرکے زچہ اور بچہ کے لیے بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں۔
۔ زمینوں سے پانی نکالنے اور ان کو آباد کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور پیداواری زرعی اشیاء مفت فراہم کی جائیں۔
۔ جانوروں کے لیے مفت چارے کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
۔ قرضہ جات معاف کیے جائیں یا سرکاری سطح پر ان کی ادائیگی کی جائے۔ نیز آئندہ کے لیے بلا سود قرضے اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں۔
۔ بڑے پیمانے پر مچھر مار اسپرے کا فوری چھڑکاؤ کیا جائے۔
۔ مکانوں اور دکانوں کی بلا معاوضہ تعمیر کی جائے۔ نیز فوری امداد 25,000 روپے سے بڑھا کر 100,000 روپے کی جائے۔
۔ امداد کی شکل میں سامراجی پالیسیوں کے ذریعہ کارپوریٹ شعبہ کو بڑھاوا نہیں دیا جائے۔
۔ تمام زرعی پالیسی سازی اور ان پالیسیوں کو لاگو کرنے میں چھوٹے اور بے زمین کسانوں (50 فیصد مرد اور 50 فیصد عورتوں) کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔
جاری کردہ ؛ پاکستان کسان مزدور تحریک