پریس ریلیز
اس سال ” دیہی عورتوں کے عالمی دن کو مناتے ہوئے 20 سال ہو گئے ہیں۔ ان بیس سالوں میں دیہی عورتوں پر کیا بہتر اثرات سامنے آئے ہیں۔ افسوس ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر بھوک بڑھتی جا رہی ہے۔ 2016 میں 801 ملین لوگ بھوکے تھے اور صرف ایک سال میں ان کی تعداد 821 ملین ہو گئی ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر یہ ایک بھیانک سچ ہے کہ ان لوگوں میں 60 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔ یہ حالات یقیناًان طاقتور کرداروں کی وجہ سے ہے جو زرعی پیداواری نظام پر قابض ہیں۔ ان میں جاگیرداری، سرمایہ داری اور پدرشاہی طاقتیں سب سے آگے ہیں۔ دنیا میں کیمیائی صنعتی زراعت نے نہایت تباہ کاری برپا کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) اور روٹس فار ایکوٹی دیہی عورتوں کا عالمی دن پیسٹی سائیڈ ایکشن نیٹورک (پین اے پی) اور دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ مل کر یکم تا 16 اکتوبر نوجوانوں کی قیادت میں زرعی ماحولیات اور خوراک کی خودمختاری کے لیے جدوجہد ’’یوتھ آن دی مارچ: بلڈنگ گلوبل کمیونٹی فار ایگروایکولوجی اینڈ فوڈ سورنٹی!‘‘ کے عنوان سے منارہی ہے۔
پی کے ایم ٹی اور روٹس فار ایکوٹی نے دیہی عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر گھوٹکی، سندھ میں ایک جلسے کا اہتمام کیا جس میں پی کے ایم ٹی کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور عورتوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پی کے ایم ٹی، گھوٹکی کی رکن زریت نے کہا کہ پاکستان کی تقریباً دو تہائی آبادی دیہات میں رہتی ہے جہاں زرعی شعبہ میں کام کرنے والے مزدورں میں عورتوں کا تناسب 74 فیصد ہے جو کپاس، گنا، گندم اور چاول جیسی اہم فصلوں کی کٹائی، چنائی، بیجائی اور دیگر کام سرانجام دیتی ہیں۔ روٹس فار ایکوٹی کی تحقیق کے مطابق سندھ اور پنجاب میں کپاس چننے والی عورتیں 200 سے 300 روپے فی من اور دیگر فصلوں پر 100 سے 150 روپے یومیہ اجرت پر آٹھ سے دس گھنٹے سخت سردی اور گرمی میں ایسے ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں جہاں انہیں ہر قدم پر صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2013 میں جاری ہونے والی آخری قومی غذائی سروے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں50.4 فیصد عورتیں خون کی کمی، 41.3 فیصد وٹامن اے ، 66.8 فیصد وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی 2018 میں صنفی امتیاز پر جاری ہونے والی رپورٹ سے سندھ میں عورتوں میں غذائی کمی کی تشویشناک صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سندھ میں دیہی عورتوں میں غذائی کمی کا تناسب 40.6 فیصد ہے جبکہ افریقی ملک نائیجیریا کی دیہی عورتوں میں غذائی کمی کا تناسب 18.9 فیصد ہے۔
پی کے ایم ٹی سندھ کے صوبائی رابطہ کار علی نواز جلبانی نے کہا کہ نیولبرل پالیسیوں کے تحت ہائبرڈ اور جینیاتی فصلوں پر مشتمل غیر پائیدار کیمیائی طریقہ پیداوار کا فروغ ناصرف کسانوں کو منڈی کا محتاج بنا رہا ہے بلکہ بیجائی سے چنائی یا کٹائی کے مراحل تک سب سے زیادہ فصلوں پر کام کرنے والی دیہی عورتوں کی زندگیوں کو بھی شدید خطرات میں مبتلا کررہا ہے۔ خصوصاً کپاس کی فصل پر کام کرنے والی عورتیں خارش، دمہ اور دیگر جلدی بیماریوں کا شکار جاتی ہیں جس پر بیماریوں اور کیڑوں سے بچاؤ کے لیے بھاری مقدار میں زہریلے اسپرے کیے جاتے ہیں جو شدید ماحولیاتی آلودگی کا سبب بھی ہے۔ کپڑے برآمدی صنعت جو زرمبادلہ کے حصول کا اہم ترین زریعہ ہے، ان دیہی عورتوں کی مرہون منت ہے جن کی بہبود کے لیے سرکای سطح پر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔
پی کے ایم ٹی کے سابق مرکزی رابطہ کار راجہ مجیب کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ملک سے بھوک ،غربت، غذائی کمی، صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ زمین، بیج اور پانی جیسے اہم پیداواری وسائل پر کسانوں کا اختیار ہو ناکہ جاگیردار، سرمایہ دار اور ان کی زرعی کمپنیوں کا۔ پی کے ایم ٹی دیہی عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر مطالبہ کرتی ہے کہ خوراک کی خودمختاری کے حصول کے لیے زمین کسان مرد و عورتوں میں منصفانہ اور مساویانہ بنیادوں پر تقسیم کی جائے اور پائیدار زرعی ماحولیاتی نظام (ایگرو ایکالوجی) کو فروغ دیا جائے۔
جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک