پریس ریلیز| 8 مارچ 2023
پاکستان کسان مزدور تحریک نے مزدور عورتوں کے عالمی دن 8 مارچ، 2023 کو ”بچاؤ دیہی انمول اثاثے؛ مہم برائے مال مویشی و دودھ“ کا آغاز کیا ہے۔ اس مہم کا مقصد حکومت کے تازہ قدرتی کھلے دودھ پر مکمل پابندی کے قانون، دودھ اور مال مویشی کے شعبے میں بڑھتی ہوئی آزاد تجارتی پالیسیوں اور اس شعبہ پر ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے قبضے کے خلاف کسان و عوام کو خبردار کرتے ہوئے اپنے خوراک و روزگار اور ماحول کے بچاؤ کے لیے عوام کو متحرک کرنا ہے۔
پنجاب اور سندھ فوڈ اتھارٹیوں نے دودھ کے شعبہ میں بڑھ چڑھ کر قانون سازی شروع کی ہے۔ اس حوالے سے پنجاب اور سندھ فوڈ اتھارٹی نے 2018 میں پیور فوڈ قانونی ضابطے (ریگیولیشنز) جاری کیے ہیں۔جس کے فوری اطلاق کے لیے اب پنجاب حکومت لاہور اور اس کے بعد پورے پنجاب میں تازہ قدرتی کھلے دودھ پر مکمل پابندی کے لیے بار بار اعلانات کررہی ہے۔ ان قانونی ضابطوں کے تحت تازہ قدرتی کھلے دودھ کو پیسچورائز کرنے کے بعد ہی فروخت کیا جاسکتا ہے۔ وہ کاروبار جو کہ دودھ اور دودھ سے بنائی جانے والی دیگر اشیاء کو تیار کررہے ہیں ان سب کو حکومت سے فروخت کا لائسنس لینا ہوگا۔
اس قانون کے پیچھے کونسے طاقت ور گروہوں کا ہاتھ ہے؟ یہ قوانین عالمی تجارتی ادارہ ڈبلیو ٹی او کے تحت سینیٹری اور فائیٹو سینیٹری معاہدہ اور ٹیکنیکل بیریئرز ٹو ٹریڈ کو مد نظر رکھ کر بنائے گئے ہیں۔ ان قوانین کو دراصل بڑی بڑی دیو ہیکل دودھ اور مال مویشی کے سرمایہ دار اور سرمایہ کار کمپنیوں کی ایما پر کیا جارہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر دودھ اور دودھ سے تیار کردہ مکھن، پنیر، ملائی اور دیگر مصنوعات یہی اجارہ دار کمپنیاں تیار اور فروخت کرتی ہیں اور بے تحاشہ منافع کماتی ہیں۔ ان کے بالمقابل چھوٹے اور بے زمین کسان گھرانے ہیں جن میں خاص کر اس شعبے سے منسلک مزدور کسان عورت کی سخت محنت ہمارے پورے ملک کو دودھ اور گوشت جیسی انمول غذا فراہم کرتے ہیں۔ دراصل اجارہ دار کمپنیاں ان ہی لاکھوں گھرانوں کی روزی اور خوراک پر ڈاکہ ڈال رہی ہیں۔ دیہی کسان مزدور عورت کا زراعت بالخصوص مال مویشی اور دودھ کی پیداوار میں کلیدی کردار کی وجہ سے ہی اس مہم کا آغاز مزدور عورتوں کے عالمی دن 8 مارچ سے کیا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ اس شعبہ میں اب غیر ملکی نسل کی گائے کو پاکستان لایا جارہا ہے اور کوشش ہے کہ پاکستانی نسل کے دودھ دینے والے اعلیٰ جانوروں کو ختم کرکے غیر ملکی جانور کسانوں پر مسلط کردیے جائیں۔ ناصرف جانور بلکہ افزائش نسل کے لیے مادہ (سیمن) بھی ملک میں درآمد کیا جارہا ہے۔ ساتھ ساتھ غیر ملکی چارہ اور بیج بھی منڈی میں عام کیا جارہا ہے۔ نتیجہ کیا ہوگا؟ اس وقت پاکستان کا مجموعی قرضہ 126.3 بلین امریکی ڈالر (تقریباً 337 کھرب روپے) تک پہنچ چکا ہے۔ اس قرض کے بوجھ تلے عوام پہلے ہی شدید بدحالی کا شکار ہے اور اب مزید قرضہ برداشت نہیں کرسکتی۔ نہ کہ ہم اپنے بیش بہا مال مویشی کی قدرتی نسلوں کو سنبھالیں ہم مزید قرضہ چڑھا کر غیر ملکی اجارہ دار کمپنیوں کو اپنی منڈی پر قبضے کی کھلی دعوت دے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ مال مویشی شعبہ زراعت میں تقریباً 60 فیصد حصہ رکھتا ہے اور ملک کی پیداوار میں 11 فیصد ڈالتا ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے ملک کی تقریباً ایک کروڑ دیہی گھرانوں کے لیے آمدنی کا ذریعہ ہے، ان کی خوراک بلکہ پوری قوم کی خوراک کا انتظام انہی دیہی گھرانوں کے کندھوں پر ہے۔ انہی دیہی مزدور کسان گھرانوں کی محنت نے پاکستان کو دنیا کا چوتھا بڑا دودھ پیدا کرنے والے ملک کا درجہ دیا ہے۔ اس قدر شاندار پیداوار پر قبضہ کرنے کے لیے آزاد تجارت اور نیولیبرازم کی پالیسیوں کی آڑ لیتے ہوئے سامراجی طاقتوں کو ہمارے انمول اثاثوں کو ہتھیانے کی جگہ فراہم کی جارہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ منافع خور کمپنیوں کے لیے جنوبی ایشیاء اور چین کی کثیر (صارف) آبادی دودھ اور دودھ سے بنی اشیاء کے استعمال کے لیے ایک بہت ”پر کشش“ منڈی ہے۔ پاکستان میں چھوٹے اور بے زمین کسانوں کی اس وقت دودھ اور دودھ سے منسلک اشیاء کی منڈی پر 80 فیصد اختیار ہے۔ جو کہ بین الاقوامی منڈیوں کو سخت ناگوار محسوس ہورہا ہے۔ اس 80 فیصد منڈی پر کمپنیاں ڈاکہ ڈالنے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہوئے اس کو بدنام کررہی ہیں۔ پاکستان کسان مزدور تحریک کا مسمم ارادہ ہے کہ وہ ایسے سامراجی ہتھکنڈوں کو ناکام بنائیں گے۔ ہم اپنے انمول اثاثوں کو سنبھالنا جانتے ہیں۔ ہم نے اپنی قدرتی بیجوں کو ناقص انسان دشمن، کسان دشمن، ماحول دشمن ہائبرڈ اور جینیاتی بیجوں کے ہاتھوں کھویا ہے۔ اب ہم اپنے روایتی انمول جانوروں کو برباد نہیں ہونے دیں گے!
جاری کردہ: پاکستان کسان مزدور تحریک